عبدالسلام عاصم
محمد عمر گوتم اورمفتی قاضی جہانگیر قاسمی کی گرفتاریاں خالصتاً سیاسی نوعیت کی ہیں۔ ردعمل سے گزرنے کے بعد اس بات کی مزید تصدیق ہوجاتی ہے کہ سیاست کا گندہ کھیل کھیلا جارہا ہے، جس میں سب کے ہاتھ سنے ہوئے ہیں۔یہ کھیل کھیلنے والے دونوں طرف کے متعلقہ لوگوں کو خوب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے! لیکن وہ تاثر ایسا دیتے ہیں جیسے کہ انہیں اپنے مذاہب سے بڑی محبت ہے اور اُن کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔واقعاًگزر تو رہے ہیں اور پورے برصغیر میں گزر رہے ہیں، لیکن مذاہب کیلئے نہیں؛ بلکہ اپنے اُن آقاوں کیلئے جنہوں نے دونوں طرف آمنا و صدقنا کی ورد کرنے والے مقلدوں اور بھگتوں کی پوری ایک فوج تیار کر رکھی ہے۔
کیا مولانا گوتم کو مسلمان بنانے والوں نے اُنہیںیہ نہیں بتا یا تھا کہ جس طرح جان بچانے کیلئے حرام کھا لینا جائز ہے اُسی طرح اجتماعی نقص امن سے بچنے کیلئے وقتی طور پر کسی حلال کام کو بھی اُٹھا رکھا جا سکتا ہے۔تبلیغ کا کام اُس وقت تک غلط کام نہیں جب تک مقصد کے اعتبار سے اِس کا ظاہر باطن سے متصادم نہ ہو۔اِسی کے ساتھ تبلیغ کا کام بنیادی طور پر گفتار سے کہیں زیادہ کردار سے کشش پیدا کرنے کا متقاضی ہے، جس کا بدقسمتی سے بعض اہلِ مذاہب کے یہاں سخت فقدان ہے۔ایسا کیوں ہے ! یہ ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی بحث ہے لہذا اُس سے گریز کرتے ہوئے یہاں صرف امکانی ماحول اور اندیشوں سے گھرے حالات میں ایک ہی کام کو کرنے اور نہ کرنے کی اہمیت اور فائدے سے سروکار رکھا گیا ہے۔
نفرت اور فرضی دوقومی نظریے کی بنیادپر وطن عزیز کے بٹوارے کے بعد سب سے پہلے تقسیم میں دخیل مذاہب کے فعال کردار اور اس کے دوطرفہ تاثرات سے متاثر ماحول کو حقیقی تعلیم سے استفادہ کرتے ہوئے سنبھالنے کی ضرورت تھی۔یہ کام ہندستان اور پاکستان دونوں جگہوں پر نہیں ہو سکا۔ اسباب جگ ظاہر ہیں۔ بنگلہ دیش اپنی خوش نصیبی اور پاکستان کی قسمت پھوڑ سیاست کی وجہ آزاد نہیں ہوا ہوتا تو آج وہ بھی فرقہ وارانہ آلودگی میں بُری طرح سنا ہوا ہوتا۔ باوجودیکہ وہاں بھی سب خیریت نہیں ۔جنرل ضیاالرحمنٰ اور جنرل ارشاد کے زمانے میں مذہبی منافرت کے جو بیج بوئے گئے تھے، اُس کیلئے بنگلہ دیش کی زمین بالکل ہی بے آب و گیاہ نہیں تھی۔ یہ وجہ ہے کہ خال خال وہاں بھی مذہبی منافرت کا کھیل انسانی خون کے تقدس کو پامال کرنے کی حد تک کھیلا جا تا ہے۔سب سے بری حالت پاکستان کی ہے ، دوسرے نمبر پر وطن عزیز ہے جس کے سیکولر عہد کو بدقسمتی سے اقلیت/اکثریت کے کھیل میں تباہ کر دیا گیا۔
پچھلے سال کے نام نہاد کورونا جہاد کو لوگ ابھی بھولے نہیں ہوں گے۔ اُس ایپی سوڈ کو بھی باہمی اشتراک سے تیا کیا گیا تھا۔ ایک طرف جہل تو دوسری شاطر مزاجی کی آمیزش سے وہ افسانے اور کہانیاں گڑھی گئیں کہ بالغ ہونے کے باوجود پریوں کی کہانی سے بہلنے والے ایکدم سے من گھڑت داستانوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ہفتوں بلکہ مہینوں یہ کاروبار چلا ۔ منافع بالا بالا دونوںطرف بٹا اور خسارے میں رہے وہ لوگ جن کے جوش و جذبے کا بے جا استحصال کرنے والے ہی اُن کے محسن بنے پھرتے ہیں۔الاماں الحذر۔
تازہ ایپی سوڈ جس ماحول میں سامنے آیا ہے وہ ماحول راتوں رات تیار نہیں کیا گیا۔ دھیمی آنچ پر پکنے والے اس کھانے کو اِس اہتمام سے پروسا گیاکہ لوگ سمجھ ہی نہیں پائے کہ سب کچھ من گھڑت ہے۔ کچھ غلطیاں ضرور ہوئی تھیں لیکن وہ ارادتاً نہیں ہوئی تھیں۔البتہ اُنہیں اس انداز سے پیش کیا گیا کہ اچھے اچھوں کے ہوش اُڑ گئے تھے۔بہر حال اس ایپی سوڈ میں جنہیں فائدہ ہوا وہ پھنس جانے والوں کی نجات کا سہرا اپنے اپنے سروں پرباندھ کر سود بھی بٹوریں گے۔
دنیا میں مذاہب کی کمی نہیں ، مذاہب کے سچے اور ذہین پیروکاروں کی زبردست کمی ہے جس کا فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جو صرف منافع کمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ بیشتر مذہبی پیشواوں نے، جوہرخدائی فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں اور دنیا میں ہی اپنے لئے شداد کی جنت بنا رکھی ہے ،دوسرے مذاہب کے نقصان میں اپنا فائدہ ڈھونڈنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ اس کاروبار میں دونوں طرف کے بھکت ٹائپ کے پیروکار خام مال کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔کیس بگڑنے پر انہی کے جان و مال کو نقصان پہنچتا ہے۔ حد تو یہ ہے ریلیف کے نام دوسروں کے اس نقصان کا بھی مذہبی تجار فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
ایسے میں کسی گوتم یاکسی جہانگیر پر کیا گزرے گی یہ تو وہی بیچارے بتا سکتے ہیں۔البتہ انہیں حکمت کی جگہ صرف عقیدت کا سبق پڑھانے والے اُن کی رہائی کے بعداُنہیں مجمع میں لاکر اُن کی ہمت اور شجاعت کی داد وصول بھی خود وصول کریں گے۔ ٹا ڈا اور پوٹا کے حوالے ایسی کتنی ہی انکھوں دیکھی داستانیں رپورتاژ کی شکل میں اخباری دستاویز کا حصہ ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ملت اسلامیہ ہند ہوش کے ناخن لے اور یہ سمجھے کہ ان کے بنیادی مسائل دوسروں سے مختلف نہیں۔ البتہ حکومت کے سامنے اُن کے جو مسائل رکھے جاتے ہیں وہ در اصل اُن کے مسائل نہیں ، تجار کے مسائل ہیں ۔ حکومت بھی اِس راز سے واقف ہے اس لئے وہ انہی کی منھ بھرائی کرتی ہے جو اُسے راست یا بالواسطہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ کانگریس اور یو پی اے کے زمانے میں بھی یہی ہوتا تھا اور آج بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ فرق بس اتنا ہے پہلی حکومتوں کو بلیک میل کیا جاتا تھا۔ موجودہ حکومت کو ای میل کیا جاتا ہے۔
بہر حال مایوس ہانے کی ضرورت نہیں ۔ زندگی آزمائشوں کا سفر ہے۔ اس سفر میں قدم قدم پر امتحان گاہیں ہیں، جن سے سبھی گزرتے ہیں ۔ دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ ملت کے مٹھی بھر بیدار مغز لوگ آزمائش اور امتحان سے کامیاب گزرنے والوں کی حکمتوں سے اپنے حلقے کے نوجوانوں کو کیسے بہرہ ور کرتے ہیں۔ان بیدار لوگوں کوچاہئے کہ وہ ملی نوجوانوں سے پوچھیں کہ ’’ تم تو ایک نعرے پر مغرب کے پرڈکٹس کے بائیکاٹ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر اتر آتے ہو، کیا کبھی تم نے اپنے حلقے کے شدت پسندوں کی کسی حرکت کے خلاف اہل مغرب و یورپ کو’’ ملی پروڈکٹس‘‘ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے، اگر نہیں، تو اُن لال بجھکڑوں سے اِس بابت پو چھا جائے جو فوج تو اپنی رکھتے ہیں لیکن ہتھیار کے نام پر سوئی سے کارپیٹ بمباری کرنے والے ابابیلی طیارے بھی مغرب سے مانگتے ہیں۔
ایسا نہیں سائنس کی ترقی سے ہمیں کچھ لینا دینا ہے ، ہمیں تو ہر سامان چاہئے اوروہ بھی منھ مانگی قیمت پر۔ گویا ہمارے یہاں پیسے کی زبردست فراوانی ہے، بس یہ نہیں پتہ کہ سرمایہ کہاں لگانا ہے! موجودہ منظر نامہ جسے نظریاتی اسکولوں نے مرتب کیا ہے صرف حقیقی اور عصری
سائنسی تعلیم سے بدلا جا سکتا ہے۔یہ دنیا اگر بساط آخرت ہے تو اسے اُلٹنے سے بچانے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ہمیں دنیا سے احسن طور پر پیش آکر آخرت کے امتحان کی تیاری کرنی ہے۔ اگر ہم رات دن آخرت کی بس فکر میں گھلتے رہے تو ایک دن مر تو جائیں گے مگر ناکام دنیاوی زندگی کا حصہ بن کر ۔تو کیا یہ ممکن ہے کہ کایا پلٹ تبدیلی کیلئے پہلے مرحلے میں زندگی کے تقدس کو پامال نہ کرنے کے ارادے کو اتنی تقویت دی جائے کہ ذاتی دشمنی کے بغیر کبھی کسی پر ہمیں غصہ نہ آئے اور کسی کو ہم سے کوئی گزند نہیں پہنچے۔