تحریر:افتخار گیلانی
ماسکو کی گہما گہمی سے چند دن مستعار لے کر سوویت یونین کے سربراہ نکیتا خروشچیف 1961کے آس پاس جب جارجیا میں اپنے فارم ہاؤس میں چھٹیاں منانے کیلئے پہنچے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی یہ چھٹیاں دنیا پر تیسری عالمی جنگ کا خطرہ لے کر وارد ہو جائیں گی۔ ان کے آنے سے قبل اس فارم ہائوس میں روسی سائنسدانوں کی تیار کردہ انتہائی جدید دوربین نصب کی گئی تھی۔ فارم ہائوس کے اطراف ہرے بھرے علاقے اور صاف و شفاف پانی کا لطف لیتے ہوئے جب خروشچیف نے دوربین سے باہر کی دنیا دیکھی تو سرحد کے دوسری طرف ترکی میں امریکی فوجی مستقر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس مستقر پر موجود جوپیٹر جوہری میزائل بھی دکھائی دے رہے تھے مگر جس چیزنے روسی سربراہ کو مضطرب کر دیاوہ یہ تھا کہ ان میزائلوں کا رخ اسی فارم ہاؤس کی طرف تھا۔ یعنی چند سیکنڈ میں ہی یہ میزائل خروشچیف کے فار م ہائوس کو نیست و نابود کرسکتے تھے۔ روسی سربراہ کی چھٹیاں کرکری ہو گئی تھیں۔
ماسکو واپسی پر خروشچیف نے اپنے قریبی معتمدوں کو اعتماد میں لےکر ایک ایسے انتہائی خفیہ آپریشن کا آغاز کیاجس کی بھنک بھی اگلے ایک سال تک امریکی خفیہ اداروں کو نہیں ملی۔ یہ آپریشن تھا امریکہ کی ناک کے نیچے یعنی کیوبا میں جوہری میزائل نصب کرنا تاکہ امریکی صدر بھی اسی طرح عدم تحفظ کا شکار ہو جائے جس طرح وہ خود ہوگئے تھے۔ وہ تو بھلا ہوا ایک امریکی یو۔ ٹو جاسوسی طیارے کا ، جس نے میزائلوں کی باضابطہ تنصیب کے ایک عرصہ بعد اکتوبر 1962ء میں کیوبا کے اوپر پرواز کرتے ہوئے چند تصویریں کھینچیں۔ جب ان تصویروں میں دکھائے ایک ساحلی شہر کے پاس ایک نئی سڑک اور اس کے اختتام پر ایک کھلی جگہ پر کرین اور عمارتی لکڑی کے تختوں پر ایک تجربہ کار فوٹو اینالسٹ کی نظر پڑ گئی تو اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تختے صرف اور صرف سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں سے لیس 82-12میزائل ہیں۔ جب اس کی اطلاع امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو دی گئی تو اس نے سیکورٹی سے وابستہ تمام اہلکاروں اور وزیروں کی میٹنگ میں اس فوٹو اینالسٹ کو بھی مدعو کیا ، جس نے فوٹو دکھاکر اور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کردیا کہ جاسوس طیاروں کے ذریعے لی گئی تصاویر سوویت میزائل ہیں۔
میٹنگ میں چند وقفے تک تو سکتہ سا چھا گیا اور پھر وہاں موجود افراد نے امریکی خفیہ تنظیم سی آئی اے کے سربراہ جان میککان کو آڑے ہاتھوں لیا، جو حال ہی میں اپنے ہنی مون کی چھٹیاں مکمل کرکے واشنگٹن لوٹے تھے۔ سبھی افراد یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ سوویت بحری جہاز میزائل اور اس کے لانچر وغیرہ لاد کر کس طرح امریکی خفیہ اداروں اور اتحادیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پہلے بحیرہ اسود اورنیٹو کی ناک کے نیچے بحیرہ روم اور پھر بحر اوقیانوس کو پار کرکے ، کس طرح ماہرین کے ساتھ کیوبا وارد ہوئے۔ اور امریکہ کو تب پتہ چلا ، جب 40کے قریب میزائل آپریشن کی حالت میں نصب کئے جا چکے تھے۔ سی آئی آے کے سربراہ کو یاد آرہا تھا کہ اس کے ہنی مون پر جانے سے قبل میامی کے دفتر میں کچھ ایسی اطلاعات آرہی تھیں ، جن میں بتایا گیا تھا کہ کیوبا کے قصبوں کی شاہراوں پر رات بھر دیو ہیکل ٹرکوں کی آمد رفت ہو رہی ہے، جن پر کینوس سے ڈھکی ہوئی لمبی چیزین لدی ہوتی ہیں۔ کئی بار ان ٹرکوں کو ان پر لادے بوجھ کی وجہ سے موڑکاٹنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ایک سال قبل خلیج پگز میں کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا سی آئی اے کا پلان بری طرح ناکام ہو گیا تھا اس لئے ادارے نے محتاط قدم اٹھا کر دیگر ذرائع سے بھی اطلاعات کی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ابھی بھی ٹرکوں میں لادے ہوئے ساز و سامان کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر پا رہے تھے۔
سی آئی اے کا فوٹو اینالسٹ امریکی صدر کو بتائے جا رہا تھا کہ کیوبا میں نصب یہ میزائل ایک ہزار میل کی دوری تک مار کرسکتے ہیں اور محض 13منٹ میں ہی واشنگٹن کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 22اکتوبر 1962کو صدر کینیڈی نے قوم کے نام پیغام میں بتایا کہ سوویت میزائل امریکی براعظم میں پہنچ چکے ہیں اورعوام کو جنگ کیلئے تیار رہنے کی اپیل کی۔ اسی دوران جب ایک اور امریکی جاسوسی طیارہ کیوبا کے اوپر اڑان بھر رہا تھا تو میزائل ڈیفنس سسٹم نے اسکو مار گرایا۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں امریکی فوجی اڈوں سے فوجیوں کی نقل و حمل شروع ہوگئی اور دنیا ایک تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوگئی۔
بعد میں جو تفصیلات منظر عام پر آئیں ان کے مطابق یہ میزائل بحیرہ اسود میں موجود کریمیاء کی بندر گاہ سیواستو پول سے جہازوں میں لادے گئے تھے۔ اس سے کئی ماہ قبل اس پورے علاقے میں سوویت خفیہ ادراوں نے آپریشن کرکے مشکوک افراد ، جن میں شاعر، مصور اور وہ یہودی بھی شامل تھے جو اسرائیل جانے کیلئے پر تول رہے تھے، کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ بندرگاہ جانے والے ہر شخص کی نگرانی کی جارہی تھی۔ بحری جہازوں کے کپتان و عملہ کو بتایا جاتا تھا کہ یہ ساز و سامان سائبیریا کیلئے لوڈ ہو رہا ہے۔ لنگر اٹھانے سے قبل خروشچیف کا ایک معتمد کپتان کے ہاتھ میں ایک مہر بند لفافہ پکڑاتا تھا جو اسکو بحیرہ اسود کراس کرکے بحیرہ روم میں کھولنا ہوتا تھا، جس میں اسکو کیوبا جانے کی ہدایت درج ہوتی تھی۔ ایک لمبی اعصاب شکن سفارتی تگ و دو کے بعد امریکہ نے ترکی اور اٹلی سے اپنے جوہری میزائل ہٹانے کا اعلان کردیا، جس کے جواب میں سوویت یونین نے کیوبا سے میزائل واپس لاکر امریکی صدر کینیڈی کو راحت فراہم کی۔ اس پوری رشہ کشی میں کیوبا ایک شطرنج کا بورڈ بن گیا۔
لگ بھگ 60 سال بعد ایک بار پھر دنیا یوکرائن میں امریکی میزائلوں کی تنصیب اور بڑی طاقتوں کی رسہ کشی کی وجہ سے جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ کردار وہی ہیں مگر ان کا رول الٹ ہے۔ جو رول کیوبا میزائل قضیہ کے دوران سوویت یونین کا تھا، وہ اب امریکہ کا ہے، جس نے روس کی ناک کے نیچے اسکی سرحد سے متصل اپنا جدید اسلحہ نصب کردیاہے، جس کے جواب میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرائن کی سرحدوں پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب فوج اکھٹی کی ہے۔ امریکی اور پورپی ممالک نے پہلے ہی یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں اپنے فوجی مبصر تعینات کئے ہیں۔ خود امریکی صدر جو بائیڈن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی فوجی کارروائی ہوسکتی ہے، جس سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے اب تک تین سو کے قریب جوالین میزائل اور بنکر نیست و نابود کرنے والے انتہائی مہلک بم یوکرائن پہنچادیے ہیں۔ جنگ کی صورت میں روس سے گیس کی ترسیل بند ہونے کی صورت میں یورپی ممالک متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ امریکہ اگلے چند روز میں 8,500فوجی یوکرائن یا اس کے آس پاس متعین کر رہا ہے اور یورپ میں موجود 64,000 سپاہیوں کو تیاررہنے کا حکم دیا گیا ہے۔روس نے اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مولدوا اور کریمیا میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کی ہیں ، اس کے علاوہ بحیرہ عرب میں چین کے اشتراک کے ساتھ بحری مشقیںکیں۔ روس اپنے اسکندر میزائلوں کو بھی حالت تیاری میں رکھے ہوئے ہے اور یوکرائن کی سرحد پر 60جنگی جہاز اور بمبار تیاری کی انتہائی حالت میں ہیں۔
42ملین آبادی پر مشتمل اور 6لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط یوکرائن مشرقی یورپ میں واقع ہے اور 1991تک سوویت یونین کا حصہ تھا۔ اس کی سرحدیں ، روس کے علاوہ، پولینڈ، بیلاروس، سلوواکیہ ، رومانیہ ، ہنگری اور مالدوا کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ سارا قضیہ ہی اس وقت شروع ہوا ، جب امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد نے یوکرائن کی ممبر شپ کی درخواست کو منظور کر لیا۔یوکرائن ابھی تک نیٹو کا ’شراکت دار ملک‘ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرائن کو مستقبل میں کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔روس مغربی طاقتوں سے اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ لیکن مغرب اس کے لیے تیار نہیں۔یوکرائن میں رہنے والے روسی باشندوں کی ایک بڑی آبادی ہے ان کے روس سے قریبی سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ کریملن یوکرائن کو اپنے قریبی علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس کا خیال ہے کہ نیٹو اتحادی ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی مزید اسلحہ اسکی سرحد کے پاس اکٹھا کریں گے۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ روس کو، چین کو قابو میں کرنے کیلئے ایشاء بحرالکاہل کے خطے سمیت بلقان ملکوں کے علاوہ وسط ایشاء میں بھی پیر جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس پر روس اور چین جز بز دکھائی دیتے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں اس اتحاد کو روس کو گھیرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ امریکہ نے 1990 میں دی گئی اپنی اس ضمانت کو ختم کر دیا، جس کے مطابق نیٹو اتحاد مشرق میں نہیں پھیلے گا۔ اس سے قبل 2013ء میں جب اس وقت کے یوکرائن کے صدر وکٹر یان کووچ نے یورپی یونین میں شامل ہونے سے انکار کردیا تو ایک سال بعد عوامی بغاوت نے ان کو معزول کردیا۔ ملک کے جنوبی حصوں یعنی کریمیا میں روسی بولنے والی آبادی نے تومعزول صدر کی حمایت کرکے یوکرین سے علٰحیدگی کا اعلان کرکے روس کے ساتھ الحاق کردیا۔ جس کو یورپی ممالک تسلیم نہیں کرتے ۔تب سے جنگجوؤں اور عام شہریوں سمیت اس خطے میں کم از کم 13 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ کریمیا پر روس کے قابض ہونے کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرائنمیں پیش قدمی شروع کر دی۔یوکرین کے مشرقی صنعتی مرکز ڈونباس میں روس کے کئی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں ۔لڑائی میں شدت آنے کے بعد یوکرین کے مقابلے میں علیحدگی پسندوں کو پسپائی ہونے لگی تو روس نے ان کی مدد کے لیے مشرقی یوکرین پر حملہ کر دیا۔ جرمنی اور فرانس کی مصالحت سے 2015 ء میں یوکرائن میں جنگ بندی ہوئی لیکن صورت حال کا کوئی سیاسی تصفیہ نہیں ہوسکا اور وقتاً فوقتاً جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
روس کے یوکرین پر مکمل کنٹرول کی صورت میں یہ باغی روس کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ امریکی جنرل مارک میلی کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ ’خوفناک‘ ہوگا اور اس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔ جنرل میلی نے یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ روسی فوجیوں کی موجودگی کو سرد جنگ کے بعد سب سے بڑی فوجی تعیناتی قرار دیا ہے۔
یوکرین کے اس قضیہ کو بھارت میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ 1962ء میں جب بڑی طاقتیں کیوبا کے میزائل قضیہ کو سلجھانے میں مصروف تھیں تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے بھارت پر فوج کشی کرکے اس سے 43,000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لیاتھا۔ 1961ء میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر فارورڈ پالیسی اختیار کرکے ،بھارت نے اپنی فوجیں متنازع سرحد پر چینی پکٹوں کے آگے تعینات کرنے کے فرمان جاری کئے تھے تاکہ چینی افواج کی سپلائی لائن کاٹ کر ان کو میک موہن لائن کی دوسری طرف دھکیلا جائے۔ دستاویزات کے مطابق نئی دہلی کو امید تھی کہ چین اس کے جواب میں بس اکا دکا سرحدی جھڑپوں پر ہی اکتفا کرے گا کیونکہ مکمل فوجی کارروائی کی صورت میں سوویت یونین اور امریکہ جلد ہی بھارت کی مدد کو آپہنچیں گے۔ دوسری طرف سوویت یونین نے اس سے قبل کئی بار اور پھر 1971ء میں بھی چینی سرحدوں پر فوجی نقل و حمل کرکے اس کو بھارت کے خلاف کارروائی کرنے سے باز رکھا تھا۔
مگر کیوبا کے قضیہ نے چین کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جس سے نہ صرف بھارت کی فارورڈ پالیسی کی ہوا نکل گئی بلکہ بین الاقوامی برادری میں اسکی ساکھ بری طرح متاثر ہوگئی۔ لداخ میں اسٹریٹجک لحاظ سے اہمیت کی حامل گلوان وادی میں گزشتہ برس جون میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔ سرحد کے آس پاس دونوں ملکوں نے تقریباً 50000 سے 60000 فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔ دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوکہ بعض مقامات سے چینی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں لیکن اہم ٹھکانوں پر وہ اب بھی موجود ہیں۔اس نئے انفراسٹرکچر میں ہیلی پیڈ،نئے بیرک، زمین سے فضا میں میزائل داغنے والے مقامات، ریڈار کی تنصیب کے ساتھ ساتھ چین نے نئے پل اور سڑکیں بھی تعمیر کر لی ہیں۔
واضح رہے کہ 15 جون 2020ء کو مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر دونوں ملکوں کے فوجی جوانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔حالیہ عرصے میںدونوں جانب سے جاری ہونے والے بیانات کا قدرے سخت لب و لہجہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی باقی ہے اور ایک عرصے سے جاری تعطل کے سلسلے میں دونوں کے خیالات مختلف ہیں۔
تاریخ شاید ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ کیونکہ 2020ء سے 60 سال کے بعد چینی اور بھارتی افواج ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور بڑی طاقتیں یوکرائن میں برسر پیکار ہیں۔یوکرائن کے تنازعہ کی وجہ سے امریکہ فی الحال چین کو قابو میں رکھنے کی اپنی ایشیا پیسفک پالیسی بھی بھول چکا ہے اور اس خطے میں اس نے اپنے اتحادیوں کو بڑی حد تک اب چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ چین بھی 1962ء کے مقابلے اب خودہی ایک فوجی اور اقتصادی طاقت ہے، جو بڑی حد تک امریکہ کے ہم پلہ ہے اور روس اسکے ایک اتحادی کے طور پر ابھر رہا ہے۔
یہ شاید بھارت کو خطرے کی گھنٹی کے ساتھ ساتھ موقع بھی فراہم کررہا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ نتیجہ خیز گفت و شنید کے دروازے کھول کر تنازعات کو پر امن طور پر ایک ٹائم فریم کے اندر سلجھانے کا سامان کیا جائے تاکہ 1962ء جیسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)