رام پور:
حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کہاکرتے تھے کہ مدارس اسلامیہ دین کے قلعہ ہیں اور ان کے ذمہ داران قلعہ دار‘ لیکن رامپور کی تحصیل اور علما کرام کی بستی ٹانڈہ میں ان دنوں مدارس کے قلعہ دار آپس میں ہی دست وگریباں ہیں۔ الزامات کاتبادلہ جاری ہے ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر مشتمل ہینڈبل تقسیم ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے ہنگم اور غیر اخلاقی پوسٹ کی جارہی ہیں جس سے ملت کے بہی خواہ مدارس کو اسلام کے قلعہ اور علما کرام کو وارث انبیا سمجھنے والوں کے دل زخمی ہیں۔بعض افراد نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر افسردگی کے ساتھ کہا کہ دارالعلوم ٹانڈہ کے بانی مہتمم مولانا اسلم مظاہری تنازعہ کو ہوا دے رہے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ ان پر جنسی جرائم سمیت کئی معاملوں میں ایف آئی آر بھی ہوئی ہے اس وقت کے اخبارات میں اس سے متعلق خبریں شائع ہوئی تھیں۔ لوگوں کاکہنا ہے کہ وہ ٹانڈہ کے تمام مدارس پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔مذکورہ معاملہ1997میں قائم مدرسہ جامعہ عبداللہ بن مسعود کا ہے۔مدرسہ کے مہتمم مفتی محمد راشد قاسمی مظاہری نے مدرسہ کے ایک سابق استاد اور معروف خطیب مولانا صغیر احمد قاسمی پر مبینہ سنگین مالی بدعنوانی کا الزام لگایا ہے روزنامہ خبریں بات کرتے ہوئے مفتی محمد راشد قاسمی مظاہری نے کہا کہ مولاناصغیر احمد قاسمی مدرسہ جامعہ عبداللہ بن مسعود میں کئی برس پہلے استاد تھے۔ انہوں نے شولاپور سے مدرسہ کے نام پر 8لاکھ روپے بطور چندہ وصول کئے لیکن مدرسہ میں صرف تین لاکھ جمع کرائے۔ انہوںنے کہا کہ ہم چاہتےہیں کہ وہ مدرسہ میں یا کسی دوسری جگہ آکر حساب دے دیں تاکہ معاملہ حل ہوجائےلیکن وہ ملنے کو تیار نہیں ہیں۔دوسری طرف اپنے اوپر لگے مالی بدعنوانی کے الزامات اور اس تعلق سے علاقہ میں تقسیم ہونے والے تین صفحاتی ہینڈبلپرمولانا راشد نے کہاکہ مدرسہ نظم وضبط کے ساتھ چلتا ہے۔اس کی منتظمہ کمیٹی ہے۔ اس کے سامنے حسابات پیش ہوتےہیں۔ اس لئے مالی بدعنوانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ راتوں رات قائم نہیں ہوگیا۔ اہل علاقہ کی محبت اعتماداور اساتذہ کرام کی بے پناہ قربانیوں کا مظہر ہے مدرسہ عبداللہ بن مسعود قوم کے نونہالوں کوتعلیم وتربیت میں مصرو ف عمل ہے۔
دارالعلوم ٹانڈہ کے بانی اور مہتمم مولانا اسلم مظاہری نے کہا کہ میرا اس معاملہ سے کیا لینا دینا۔ یہ معاملہ کئی برس پرانا ہے‘ اس کا تعلق مدرسہ جامعہ عبداللہ بن مسعودسے ہے۔ انہوں نے کہاکہ علما کرام کو کسی بھی معاملہ کے تعلق سے افہام وتفہیم سے کام لیناچاہئے۔ٹانڈہ کی قریشی برادری کےممتاز رہنما چودھری حافظ رحمت اللہ قریشی نے بھی مولانا صغیر احمد قاسمی پرعائد الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بدنام کرنے کی مذموم سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صغیر پر بدعنوانی کے الزامات لگانے والے دراصل اپنی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالناچاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی مقبولیت ہی ان کی دشمن بن گئی۔
مدرسہ جامعہ عبداللہ بن مسعود کے سابق استاد اور معروف عالم دین مولانا صغیر احمد قاسمی نے روزنامہ خبریں سے بات کرتے ہوئے اپنے اوپر لگے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ میرے اوپر وہ لوگ الزامات لگارہے ہیں جو سر سے پائوں تک بدعنوانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اسی مزاج ‘بے ضابطگیاں اور بدعنوانیاں سامنے آنے کے بعد ہی میں نے مدرسہ جامعہ عبداللہ بن مسعود کو خیر باد کہاتھا۔ مولانا صغیر احمد قاسمی نے کہاکہ جو بھی لوگ میری کردار کشی کی مہم میں شریک ہیں انہیں یاد رکھناچاہئے کہ عزت وذلت موت وزندگی کے فیصلے زمین پر نہیں آسمانوں پر ہوا کرتے ہیں۔ مولانا صغیر احمد نے کہاکہ میں ہرمحاسبہ‘ہر صفائی اورہر میٹنگ کے لئے تیار ہوں‘ہماری متعدد میٹنگیں ہوئی ہیں لیکن مجھ پر الزام لگانے والے میرے سامنے نہیں آتے۔ انہوں نے کہاکہ دراصل ان لوگوں کا مقصد سماج میں مجھے ذلیل ورسوا کرنے کے سوا دوسرا کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر صفائی کے لئے تیار ہوں‘ کیونکہ میرادامن صاف اور نیت پاک ہے۔
جمعیۃ علما ہند کے ضلع صدر مولانا اسلم جاوید قاسمی نے اس تنازعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ باہمی گفتگو سے اس کے تصفیہ کی کوشش کی جائے انہوں نے کہا کہ علما کرام سڑکوں پر مسائل لاکر عوام کو جگ ہنسائی کا موقع نہ دیں۔
یاد رہے ٹانڈہ کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہاں لوگ رسیدیں اور رودادیں چھپواکر ہرسال لاکھوں کا چندہ کرتے ہیں اور یوں اصل حق دار مدارس مارے جاتے ہیں۔ چندے کے ذریعہ بڑے بڑے مدارس قائم ہوئے اور چل رہے ہیں مگراس کی صفوں میں مفادپرستوں اور دنیاداروں کی انٹری سے جو کھیل ہونے لگا ہے اس سے سچے مدارس وعلما کا وقار پامال ہوا ہے۔ اس کھیل نے جگہ جگہ مدارس کے نام پر دوکانیں کھلوادیں کیونکہ اپنی ذاتی جیب سے تو کچھ لگانا نہیں پڑتا بلکہ سارا پیسہ عوام کی جیب سے آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عوام کی مذہبی حمیت اور دینی جذبہ ہی ہے جس نے ایک طرف مستحق مدارس کی رگوں کو خشک ہونے سے بچایا اور دوسری طرف غیر ارادی طور پر بے شمار دوکانداروںکاروبار مستحکم کردیا۔لوگوں کو یاد کرنا چاہئے کہ اس سے علما کرام کی توقیر میں اضافہ نہیں بلکہ رسوائی کا سبب بنے گا۔