ڈاکٹر خالد اختر علیگ
11فروری کو مجاہد آزادی ،سیاسی رہنما اورطبیب حاذق حکیم اجمل خاں کے یوم پیدائش کو عالمی یوم طب یونانی کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے ،طب یونانی قدیم طب ہے جو یونان میں پیدا ہوئی ، عرب میں تجرباتی مراحل سے گزری اور برصغیر میں عوامی طب کے طور پر مقبول ہوئی۔ حکیم اجمل خاں نے ہی طب یونانی میں جدید طریقہ کار کے مطابق تحقیق کی بنیاد ڈالی۔ جنہوں نے یونانی طب کے اصولوں کو مسلم رکھتے ہوئے جدید طریقہ سے تحقیق کی شروعات کی۔ملک کی آزادی کے بعدجب دیسی طبوںکو پھلنے پھولنے کا مساوی موقع ملا ، تو طب یونانی کے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کے تعلیمی ادارے ، تحقیقاتی مراکز بھی وجود میں آئے۔لیکن ان سب کے باوجود یونانی طب کی مقبولیت میں روز بروز کمی ہونے لگی۔ ایسا نہیں ہے کہ طب یونانی ہندوستان میں غیر معروف ہے لیکن اس کی مقبولیت میں جو اضافہ ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہورہا ہے۔ وہیں دوسری جانب آیوروید نہ صرف مقبولیت کی جانب رواں دواں ہے بلکہ پوری دنیا میں اسے متبادل طب کا درجہ حاصل ہوچکاہے ۔طب یونانی کے زوال پر بات کرنے سے پہلے آیوروید کی پیش رفت پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔کوئی چار ماہ قبل اردو کے ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ لکھنو ¿ کے لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں ،آیوروید کے اکلوتے معالج نے ڈینگی نامی مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے، آیوروید کا ایک نسخہ متعارف کروایا ہے جس کو سینکڑوں مریضوں پر آزمایا گیا، اور اس کے نتائج اچھے آئے ہیں۔دوسری خبر چند روز پہلے انگریزی اخبار کے ویب پورٹل پر شائع ہوئی کہ بی ایچ یو کے آیوروید ادارے نے بخوری ادویات یعنی اسپرے کو ہوا سے پھیلنے والے امراض میں مفید پایا ہے ،یہ صرف دو مثالیں ہیں پہلی مثال میں آیوروید کا ایک عام معالج بھی آیوروید کے فروغ اور اس میں نئی بیماریوں کا علاج تلاش کرنے میں مصروف ہے ،اور دوسری مثال میں ماہرین کا ایک گروہ نئی بیماریوں کا اپنی پیتھی سے مقابلہ کرنے کے لیے تحقیق میں لگا ہوا ہے ۔ اس کے برعکس یونانی معالجین کی اکثریت اول تو اپنے طریقہ علاج پر نقد کرتی ہے اور اسے اس لائق نہیں سمجھتی کہ اس سے فائدہ اٹھا سکے، جدید یا ایلوپیتھی اداروں میں موجود یونانی معالج تو ویسے بھی ڈرے سہمے رہتے ہیں اور جوخود کو یونانی معالج بتانے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں، وہ اپنی طب سے کیا استخراج کر پائیں گے؟ اب بات کرتے ہیں، ان نکات کی جو طب یونانی کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ۔
1- گریجویشن سطح پر طب یونانی کی تعلیم کا صحیح نظم نہیں ہے، اساتذہ یونانی طب کی افادیت کا اظہار کرنے اور اسے آزمائشی طور پر طلبہ کے سامنے پیش نہیں کرپاتے ہیں۔ طب یونانی کی درسی کتابیں قدیم معالجین کی کتابوں کی کٹنگ اور پیسٹنگ ہیں۔ جن میں کسی بھی نئی تحقیق کو شامل نہیں کیا جاتا ،جب کہ ہر سال طبیہ کالجوں اور تحقیقی اداروں میں سینکڑوں مقالات(Thesis )نئی تحقیق کے نام پر جمع کئے جاتے ہیں جس کے بعد طب یونانی میں ماہر طب ( MD) اور ماہر جراحت ( MS) کی ڈگری تفویض کی جاتی ہے۔
2- یونانی معالجین خوف کے شکار ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ جن لوگوں نے پی جی سطح پر کسی مرض پر کسی خاص یونانی دوا کے اثرات پر کام کیا ہو، اورجس کے مثبت نتائج بھی انہوں نے صد فیصد بتائے ہوں، اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کی تحقیق سے متعلق ایک مریض ہے، اس پر آپ پر اپنی تحقیق شدہ دوا /ادویات استعمال کیجئے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں، اور وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
3-ذیابیطس،ہائی بلڈ پریشر،کینسر ،دمہ ،جوڑوں اور جگر کے امراض موجودہ دور کا چیلنج ہیں ۔طب یونانی میں ایسے نسخہ جات اور ادویات ہیں جو ان امراض کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، لیکن طب یونانی کے محققین اور معالجین کے لئے یہ کوئی سنجیدہ موضوع نہیں ہے،اس سمت میں افسردگی کی کیفیت ہے۔بچوں کے امراض پر بھی کوئی خاص کام نہیں ہورہا ہے ، اورنہ ہی ایسی دوائیں تیار کی جارہی ہیں جو ان کی عمر،ذوق اور معیار کے مطابق ہواور انہیں استعمال کرنے میں آسانی ہو۔
4-طب یونانی کے محققین لیے تحقیق ایک بار ہے ، کورونا کے زمانے میں اس مرض پر قابو پانے کے لئے آیوروید کے ماہرین ملک کے طول و عرض میں کئی درجن پروجیکٹ پر کام کررہے تھے، اس وقت یونانی تحقیقی حلقوں میں خاموشی تھی۔ طب یونانی میں تحقیق کے نام پر قائم درجنوں سرکاری ادارے بھی کسی نئی یونانی دوا پر Patent حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ جب کہ ان ہی کے مقابل آیوروید کے تحقیقی ادارے روز بروز نئی نئی ادویات اور Procedures پر Patent حاصل کرتے جارہے ہیں۔
5-آیوروید دواساز کمپنیاں اپنی ادویات پر جدید تجربہ گاہوں ،اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں تحقیق کرانے پر خاصی رقم خرچ کرتی ہیں جس کے بعد ان کی تحقیق شائع ہوتی ہے ،جس سے اس دوا کی افادیت اور مضرت کے بارے میں پتا چلتا ہے لیکن یونانی دواساز اداروں کا تحقیق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یونانی دوا ساز کمپنیاں یونانی ڈگری یافتہ معالجین سے رابطہ نہیں کرتی ہیں، جب کہ آیوروید دواساز بلاتفریقِ پیتھی سب سے رابطہ میں رہتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ بیشتر یونانی معالج بھی آیوروید ادویات لکھتے ہیں۔ جب کہ یونانی دوا ساز اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دے کر یونانی ادویات کا محل استعمال اور طریقہ علاج بتاکر خود علاجی جیسے مضرت رساں عمل انجام دینے کی ترغیب کے مرتکب ہورہے ہیں۔
6-یونانی معالجوں کی ایک بڑی تعدا د نے طب یونانی کو صرف ’شادی سے پہلے اور شادی کے بعد‘تک ہی محدود کردیا ہے۔جس کی وجہ سے عوامی رجحان یہ ہے کہ طب یونانی میں صرف جنسی پریشانیوں کے علاوہ کسی اور مرض کا علاج ممکن نہیں ہے۔
7- دیسی طبوں کو کنٹرول کرنے والی وزارت آیوش اور این سی آئی ایم جیسے اداروں میں یونانی طب کی نمائندگی کرنے والے افراد کی سرد مہری نے بھی یونانی طب کو عدم مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔طب یونانی کے ایم ایس ڈگری حاملین کو آیوروید کے مقابل اجازت نہ ملنا ،اور بی یو ایم ایس میں داخلہ کے لیے دسویں جماعت تک اردو تعلیم کے سرٹیفیکٹ کی لازمیت کو ختم کرنا اس کا اہم ثبوت ہے ۔
دنیا میں وہی طب زندہ رہتی ہیں جو حالات کے مطابق اپنا کام کرنا جانتی ہوں، جن کے معالجین کی اولیت اپنی پیتھی سے کارآمد نسخوں کو نکالنااور ان سے امراض کوختم کرنا ہے ۔ آیوروید معالجین کی بہ نسبت یونانی معالجین کی اکثریت اپنے طریقہ علاج کی ناقد ہے اور اسے اپنی کلاسیکل شکل میں استعمال کرانے میں احساس کمتری کا شکار ہے،کسی بھی طب کی ترقی کے لیے اس کے معالجین کا اپنی پیتھی کے لیے مخلص ہونا، وقت کی نبض پکڑنا ، مواقع کا فائدہ اٹھانا ، اوراپنی پیتھی کے ذریعے تجارتی مقاصد اور معاشی آسودگی حاصل کرنے کاخواہش مند ہونا ضروری ہے ، افسوس اسی بات کا ہے کہ طب یونانی کے معالجین کی بڑی تعداد مذکورہ بالا کسی بھی خوبی کی حامل نہیں ہے۔