تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
حالیہ دنوں میں ہمارے ملک میں ایک بار پھر یونیفارم سول کوڈ کو لے کر ایک تازہ بحث شروع ہوگئی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی صوبائی حکومتوں نے تمام شہریوں کے لئے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی سمت میں سنجیدہ اقدامات کرنے کا اعلان کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے منشور میں بی جے پی کا کیا گیا وعدہ پورا کیا جائے گا۔ یونیفارم سول کوڈ کی بحث ہمارے ملک میں آزادی سے پہلے سے چلی آرہی ہے، اس بحث کے مطابق یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے پورے ملک کے لیے ایک مجموعہ قوانین کی تشکیل و تدوین ہونی ہے، جو شادی، طلاق، نان نفقہ، وراثت اور گود لینے جیسے اہم قانونی معاملات میں تمام مذاہب و عقیدوں کے پیروکاروں کے لئے یکساں طور پر نافذ ہوگا یعنی ایک ملک اور ایک قانون کا نظریہ اس کو پیش کرتا ہے۔ یہ اصول آئین کے باب چہارم میں آرٹیکل 44 کے تحت آتا ہے، جو کہ ریاست کے لئے رہنما اصولوں سے تعلق رکھتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت بھارتی ریاست کے پورے علاقے میں تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی۔
2019 میں سپریم کورٹ میں پہلی بار پٹیشن داخل کرکے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کی گئی جس کے بعد پورے ملک میں ایک بڑی بحث شروع ہوگئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ملک کی سالمیت اور وحدانیت کے ارتقا نیز جنسی مساوات، انصاف اور خواتین کو عزت واحترام فراہم کرنے کے لئے یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیفارم سول کوڈ کی بحث انگریزوں کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی، اکتوبر 1840 میں لیکس لوسی رپورٹ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی نے جرائم، شواہد اور معاہدوں سے متعلق قوانین کی ضابطہ بندی میں یکسانیت کی ضرورت پر زور دیا گیا، تاہم اس رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی قوانین یا پرسنل لا کو اس زمرے سے باہر رکھا جائے یعنی اس کوڈیفکیشن کے ذریعے یہاں پر آباد قوموں کے مذہبی عقائد اور جذبات کو نہ چھیڑا جائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد جب برطانیہ کی حکومت نے 1857 کے انقلاب کے بعد ہمارے ملک کو اپنے زیرحکومت لیا تو پہلی بار قوانین کی باقاعدہ تدوین عمل میں آئی، تاہم 1859 میں ملکہ وکٹوریہ کے اعلانیہ میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت برطانیہ ہمارے ملک میں مذہبی معاملات کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی کوئی بھی مداخلت نہیں کرے گی، چنانچہ اس دوران ہمارے ملک میں کرمنل وسول قوانین کی تدوین وتشکیل کا عمل جاری رہا لیکن پرسنل لا کے ساتھ کوئی بھی ترمیم نہیں واقع ہوئی اور تمام ہی طبقات اپنے مخصوص اصول وقوانین کے ساتھ باقی رہے۔
ہمارے ملک میں آزادی کے بعد پہلی بار پرسنل لا کے معاملہ میں اس وقت مداخلت شروع ہوئی جب جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے یونیفارم سول کوڈ کی تدوین نیز پرسنل لا کے خاتمہ کی کوششیں کیں، چہار طرفہ مخالفت کے بعد بھی یونیفارم سول کوڈ کی تشکیل و نفاذ کا شوشہ دستور میں شامل کردیا گیا۔ ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ کسی کو اس بات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر ریاست کے پاس طاقت ہے تو ریاست فوری طور پر اس پر عمل درآمد کرے گی، یہ رہنما اصول مسلمانوں کے لیے قابلِ اعتراض ثابت ہوسکتا ہے، عیسائی یا کسی اور مذہبی کمیونٹی کی طرف سے اعتراض ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں حکومت کی طرف سے اس پر زور نہیں دیا جانا چاہیے۔
اس دوران ہندو مذہب سے متعلق کئی اہم اصلاحی اقدامات قانونی شکل میں کئے گئے، 1956 میں ہندو وراثتی قانون بنا، اس قانون کے ذریعے لڑکیوں کو موروثی وراثت کا حق فراہم کیا گیا، جس قانون میں 2005 میں دوبارہ ترمیم بھی گئی، اس کے علاوہ ہندو میریج ایکٹ، مائینارٹی اینڈ گارجین شپ ایکٹ، گود لینے نیز نان ونفقہ سے متعلق قانون کے علاوہ اسپیشل میریج ایکٹ قابل ذکر ہیں۔
مسلم پرسنل لا میں بھی حکومت کی جانب سے وقتا فوقتا دخل اندازی ہوتی رہی ہے، سپریم کورٹ نے سب سے پہلے مسلم پرسنل لا پر بحث کرتے ہوئے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی اس وقت سفارش کردی جب مشہور زمانہ شاہ بانو کیس سپریم کورٹ میں زیر بحث تھا، 1985 میں مسلم عورت کا نان نفقہ بھی کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125 کے تحت زیر عمل قرار دے دیا گیا جس کے بعد کسی بھی مذہب کی شادی شدہ یا مطلقہ عورت سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت اپنے شوہر سے نان نفقہ طلب کرسکتی ہے اور عدالت کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی قانونی صوابدید سے شوہر کے اوپر نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد کردے، سپریم کورٹ نے 2009 میں شبانہ بانو بنام عمران خان کے فیصلے میں ایک بار پھر واضح کردیا کہ ایک مسلم عورت عدت کی مدت گزرنے کے بعد بھی کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125 کے تحت اپنے سابق شوہر سے نان نفقہ طلب کرسکتی ہے، اور عدالت اس مطلقہ کو اس کی دوسری شادی ہونے تک کے لئے نان نفقہ دینے کا حکم دے سکتی ہے۔۔ جبکہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 127(3) کے تحت مسلم پرسنل لا کو علیحدہ رکھا گیا تھا نیز مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کی دفعہ 2 کے تحت فراہم تحفظ کا بھی خیال نہیں کیا گیا تھا۔
طلاق کا اصول اور اس کے طریقے پرسنل لا میں بتائے گئے ہیں، تین طلاق سے متعلق مقدمہ “سائرہ بانو بنام یونین آف انڈیا” کا 2017 میں فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاق کے عمل کو غیر دستوری قرار دے دیا جب کہ پرسنل لا کے زمرے میں آنے والے شرعی قوانین کی روشنی میں تین طلاق کو طلاق کی ایک قسم کی صورت میں شامل کیا گیا ہے، اور پھر مرکزی حکومت نے ایک الگ قانون بناکر تین طلاق کو نہ صرف غیر دستوری اور غیر قانونی قرار دیا بلکہ تین طلاق دینے کی سزا تین سال قید بھی متعین کردی۔ تین طلاق قانون موجودہ مرکزی حکومت نے 1 اگست 2019 کو پارلیمنٹ میں پاس کیا تھا۔
یونیفارم سول کوڈ ہمارے ملک میں ایک سیاسی مسئلہ ہے، مذہبی معاملات یا پرسنل لا میں مداخلت تو ہمارے ملک میں ہوتی رہی ہے تاہم یونیفارم سول کوڈ ایک ایسا موضوع ہے جو سیاسی حلقوں سے نکلتا ہے اور مذہبی حلقوں پر چھا جاتا ہے۔ خصوصا مسلم اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اور ادارے سب سے پہلے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، جب کہ آج تک کسی بھی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کا نہ تو کوئی خاکہ منظر عام پر آیا ہے اور نہ ہی کوئی مسودہ، کسی کے پاس اس سلسلہ میں کوئی لائحہ عمل بھی موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی تجزیہ پیش کرنا ممکن ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ ابھی تک اس دعوی کی بھی کوئی بنیاد سامنے نہیں آسکی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کی شکل میں ہندو کوڈ بل کو پیش کیا جائے گا، جو کہ ہندو مذہب سے متعلق اصول و ضوابط نیز پرسنل لا کا مجموعہ ہوگا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت نے 2016 میں لا کمیشن سے یونیفارم سول کوڈ پر ایک مفصل رپورٹ مع سفارشات طلب کی تھی، تاہم ابھی تک لا کمیشن کی جانب سے کوئی بھی خاکہ یا لائحہ عمل پیش نہیں ہوسکا ہے، جب کہ لا کمیشن نے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے امکانات پر کوئی مثبت اشارہ بھی نہیں دیا ہے البتہ مروجہ متعدد مذاہب کے پرسنل لا کی اصلاح کی جانب وقتا فوقتا توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ہمارے ملک میں خاندانی نظام یا پرسنل لا کے تحت تسلیم شدہ اہم معاملات میں شادی، طلاق، نان ونفقہ، میراث ہی ہیں، ان میں سے شادی، طلاق اور نان ونفقہ میں مسلم بحیثیت قوم داخلی اصلاح کے اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے بعد عدلیہ اور قوانین نے مداخلت کا آغاز کیا جو کہ پرسنل لا میں مداخلت کہا جاسکتا ہے۔ اسلام میں وراثت کا نظام تمام وراثتی نظاموں میں سب سے اچھا اور منظم تسلیم کیا جاتا ہے جب کہ عملی طور پر مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی اہم وجہ سماج میں خواتین کو ان کا حق دلانا بتایا جاتا ہے، اور حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے کو اگرچہ مسلمان صرف اپنے اوپر سیاسی حملہ تعبیر کرتے ہیں تاہم یہ مسئلہ مسلمانوں سے زیادہ دیگر مذاہب وقوموں کے لئے بھی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ایک مذہب اور ایک تہذیب نہیں رہ رہی ہے بلکہ ہر سو کلومیٹر کے فاصلے پر زبان، تہذیب، روایت اور سماجی اقدار میں فرق صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مسلم مذہبی قیادت کو سیاسی ہتھکنڈوں سے نبرد آزما ہونے یا ان کے ہر وار کو اپنے سینے پر لینے سے گریز کرنا چاہیے، ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مسودے یا خاکے کا انتظار کریں جو کسی کے پاس موجود نہیں ہے بجائے اس کے کہ ہم واویلا اتنا مچادیں کہ بی جے پی کو اس کے سیاسی مفادات صرف کچھ بیان بازیوں پر ہی حاصل ہوجائیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)