ایسا لگتا ہے افغانستان میں اقتدار پر قابض طالبان قیادت کے درمیان تقسیم مزید واضح ہونے لگی ہے۔ عسکریت پسند تحریک کی صفوں کے اندر ایک غیر معمولی واقعہ میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے گروپ کے سپریم لیڈر اور اس کے الگ تھلگ اور نظر آنے والے رہنما ھبۃ اللہ اخونزادہ کی پردہ پوشی پر تنقید کی ہے۔ چند روز قبل اپنی ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ جب سے تحریک طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے اس کے کندھوں پر مزید ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں ۔ اس لیے تحریک کو مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا
سراج الدین حقانی نے کہا کہ طالبان کو شہریوں کو اطمینان دلانا چاہیے اور اس طرح کام کرنا چاہیے کہ لوگ طالبان سے نفرت نہ کریں اور پھر مذہب سے بھی نفرت نہ کریں۔ اگرچہ حقانی نے اخونزادہ کا نام لیا نہ ہی انہوں نے خواتین کی تعلیم کے مسئلے کی جانب اشارہ کیا تاہم ذرائع ابلاغ میں بہت سے مبصرین نے ان کے اس بیان کو طالبان کی صفوں میں اختلافات کی ایک علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ماضی سراج الدین حقانی نے اپنی سختی کے باوجود اعلان کیا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کو سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
حقانی نے یہ بیان ہفتے کے آخر میں مشرقی صوبہ خوست میں ایک اسلامی مذہبی سکول میں گریجویشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حقانی کے بیانات پر سب سے واضح رد عمل حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے تبصرے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ عوامی طور پر تنقید کرنے کے بجائے بند دروازوں کے پیچھے براہ راست تنقید کرنا بہتر ہے۔
سراج الدین حقانی کے ایسے بیانات طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حصول پر پابندی کے چند ہفتے بعد سامنے آئے ہیں۔ طالبان نے ڈریس کوڈ کا احترام نہ کرنے اور حجاب کے متعلق ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ بیان کرکے خواتین کے تعلیم کے حصول میں پابندی لگائی تھی۔ اس پابندی کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔(سورس:العربیہ )