روی کانت-ستیہ ہندی
جہاںایک طرف پورے ملک میں کورونا کی وبا سے ہاہا کار مچا ہوا ہے۔ وہیں دوسری طرف بی جے پی فروری -مارچ 2022 میں ہونے والے یوپی اسمبلی انتخابات کی تیاری میں مصروف عمل ہے۔ حال ہی میں یوپی انتخابات پر پالیسی بنانے کے لیے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ایک میٹنگ کی گئی ۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امت شاہ ، بی جے پی صدر جے پی نڈا ،یوپی آرگنائزر منسٹرسنیل بنسل اور سنگھ کے ساہ سرکاریوہ دتاتریہ ہوسبولے نے شرکت کی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وبا کے دور میں بی جے پی- سنگھ کی ترجیح کیا ہے۔ کیا ہندوستان بی جے پی اور سنگھ کے لئے کالونی ہے؟ محض اقتدار سے لطف اندوز ہونے کی جگہ ہے ! اتنی بے حسی آخر آتی کہاں سے ہے۔
بی جے پی کی ڈیجیٹل تیاری
اس میٹنگ پر سوالات اٹھیں گے، لیکن سچائی یہ ہے کہ بی جے پی نے یوپی پنچایت انتخابات کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات کی تیاری بھی شروع کردی تھی۔ جب کورونا کی دوسری لہر اپنے پیر پسار رہی تھی ، لاک ڈاؤن تھا ، نقل وحمل بند تھا، اس وقت بی جے پی ڈیجیٹل ذرائع سے بوتھ کو مضبوط کررہی تھی۔ پنہ پرمکھ بنانے اور ’اپنا بوتھ، سب سے مضبوط‘ کا نعرہ دینے والی بی جے پی نے اس دوران ایک ماہ کے اندر یوپی کے 1,65,350 بوتھوں کو وہاٹس ایپ گروپوں کے ذریعہ جوڑ ا ہے ۔
وہاٹس ایپ گروپس کے توسط سے آئی ٹی سیل بی جے پی اور ہندوتو کی مخالفت کرنے والوں کے برعکس ہر اس شخص تک پہنچ بنانے کی کوشش کرتا ہے ، جس کو ان کے پالے میں آنے کی کوئی بھی امکان دکھتاہے۔ اس کا فائدہ یقینی طور پر بی جے پی کو انتخابات میں ملتا رہا ہے ۔
فرقہ وارانہ کارڈ پر کام شروع
اب پورے ملک میں بی جے پی کی سرکاروں اور مودی -یوگی کی مقبولیت تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ کورونا بحران سے نمٹنے میں پوری طرح سے ناکام بی جے پی کے حامی نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور مارچ 2020 کے غیرمنصوبہ بند لاک ڈاؤن کے باوجود اس کے ساتھ بنا رہا، لیکن اب یہ تب کا کورونا سے اپنوں کو کھونے کا غم اور بیماری پر ہوئےخرچ سے برباد ہونے اور سرکاری اسپتالوں کی بدحالی سے مایوسی کی صورت حال تک پہنچ گیا ہے۔
یوپی پنچایت الیکشن میں ضلع پنچایت ممبر سیٹوں پر بی جے پی کے پچھڑنے سے یہی اشارہ ملتا ہے ، اس لئے اب بی جے پی پھر سے اپنے نفرت اور بانٹنے کے پرانے ایجنڈے پر لوٹ رہی ہے ۔ فرقہ وارانہ کارڈ چالو ہو گیا ہے ۔
شاکر کا’ ‘جرم‘ یہ تھا کہ وہ فیکٹری سے 50 کلو گوشت خرید کر گھر جا رہا تھا۔ اس کے پاس خریدنے کی پرچی بھی تھی ۔ دراصل شاکر کا سب سے بڑا ’جرم‘ یہ تھاکہ وہ مسلمان تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں بی جے پی کو کیا یوپی میں کامیابی ملے گی؟ ہندو راشٹر کی پہلی تجربہ گاہ اور مندر آندولن کے طرز پر بی جے پی – سنگھ کا ایجنڈہ بلا تعطل جاری ہے ۔ کورونا کی دوسری لہر آنے سے پہلے ستمبر میں رام مندر کے لیے پتھر پوجا کیا گیا ۔ نومبر میں ایودھیا میں بڑے پیمانے پر سرکاری دیپ اتسو منایا گیا ۔
سرکاری ملازمین کی موت
کورونا لہر کی آہٹ کے درمیان کمبھ میلہ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ تمام تقریبات یوپی انتخابات کے تناظر میں منعقد کی گئیں، لیکن کورونا کی وجہ سے ہونے والی تباہی نے بی جے پی کے لئے پریشانی پیدا کردی ہے۔ الزام ہے کہ انتخابی ڈیوٹی میں 2,000سے زیادہ ٹیچر وں کی موت ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ، پولیس اور محکمہ ہیلتھ کے سیکڑوں اسٹاف کی موت ہوگئی۔ تقریباً 80 پردھان عہدے کے امیدوار ہلاک ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا میں گفتگو
‘بین الاقوامی میڈیکل میگزن ’ لیسنٹ ‘ سے لے کر ’ دی اکنامسٹ‘ اور ’ نیویارک ٹائمس ‘ جیسی دنیا کی مشہور میگزن میں بحران میں ناکام مودی کے غائب رہنے پر تلخ تبصرے لکھے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود ’ سب چنگا سی‘ اسلوب میں لاپرواہ مودی محض تعزیت پیش کرنے کا ڈرامہ کررہے ہیں۔
2024 میں بھی شکست ہوگی
یہ تباہی فطری نہیں بلکہ خود ساختہ ہے۔اس لئے یہ موتیں نہیں بلکہ قتل ہے۔ لامحدود مثبت سوچ بھی ان قتل کی ذمہ داری سے آزادی نہیں مل سکتی۔ غریب دلت- پسماندہ عوام قہر بن کر ٹوٹے اس جرم اور مجرموں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اس لئے اس بار یوپی میں تو نیایا ڈوبے گی ہی۔ 2024 میں مودی کی ہا ر کی عبارت بھی اسی صورت حال میں لکھی جائے گی۔