تجزیہ:قاسم سید
وقف بل 2024 پر نتیش کمار کی پارٹی نے بی جے پی کا حق نمک ادا کیا-اس نے اپنے مسلم کارکنوں اور لیڈروں کی بھی نہ سنی وہ اکلوتی این ڈی اے کی حلیف تھی جس نے لوک سبھا میں بل پر سرکار کا کھل کر اور ببانگ دہل ساتھ دیا جبکہ ٹی ڈی پی نے مشروط حمایت کی بات کی اور لوک جن شکتی پارٹی نے تو بل کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا یعنی ہر وہ پارٹی جس کو تھوڑا بہت مسلم ووٹوں سے سروکار ہے ،بل کے خلاف کھڑی تھی مگر جنتادل یو نے خود کو ایکسپوز کرلیا ،بتایا جاتا ہے پارٹی کے مسلم لیڈروں میں بے چینی ہے ان کو خدشہ ہے کہ اسمبلی الیکشن میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ایک طرف پارٹی کے مسلم لیڈر اس بل کی مخالفت کر رہے تھے تو دوسری طرف پارٹی نے ایوان میں اس کی حمایت کی۔ مرکزی وزیر للن سنگھ نے جے ڈی یو کی جانب سے لوک سبھا میں اس بل کی زبردست حمایت کی ہے۔ سنگھ نے کہا کہ بل درست ہے اور جے ڈی یو اس کی حمایت کرتی ہے۔ نتیش کمار کی خاموشی کے درمیان جے ڈی یو کے وقف بل پر کردار نے میں پارٹی کی پالیسی اور ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔
اس بل پر جنتا دل یونائیٹڈ کی طرف سے دو طرح کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ جے ڈی یو کے مسلم لیڈروں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ حال ہی میں پارٹی لیڈر غلام غوث نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھا-غوث نے کہا ہے کہ بل لانے سے پہلے مسلم کمیونٹی سے بات کریں۔ غلام غوث نے اپنے خط میں کہا ہے کہ نہ تو انگریزوں نے اور نہ ہی کسی حکومت نے وقف زمین کو خیرات کے طور پر دیا ہے۔ یہ زمین ہماری کمیونٹی کے لوگوں نے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے دی ہے، اس لیے حکومت کو ان مذہبی مسائل میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
جے ڈی یو کے ایک اور مسلم لیڈر غلام رسول بلیاوی نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ بلیاوی نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ کیا حکومت وقف جیسے مندروں اور مٹھوں کی اراضی سے متعلق کوئی بل لائے گی؟
بہار حکومت کے اقلیتی بہبود کے وزیر نے حال ہی میں کہا تھا کہ وقف میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ بل آنے کے بعد اس پر کچھ کہوں گا
مودی حکومت میں جے ڈی یو کوٹے سے وزیرللن سنگھ نے وقف بل پر پارٹی کا موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مندر اور مسجد کا مسئلہ نہیں ہے۔ وقف ایک ادارہ ہے اور یہ مندر مسجد سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ شفافیت لانے کے لیے ترمیم ضروری ہے، اس لیے ہماری پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ نے اس کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
للن سنگھ نے مزید کہا کہ وقف بل قانون کے ذریعے بنایا گیا ہے، اس لیے اس میں صرف قانون کے ذریعے ترمیم کی جا رہی ہے۔ سنگھ نے کانگریس کو بھی نشانہ بنایا
بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے مرکز کی طرف سے لائے جانے والے وقف بل پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ نتیش اس معاملے پر ابھی تک خاموش ہیں۔ پورنیا کے ایم پی پپو یادو نے بھی نتیش کی خاموشی پر سوال اٹھائے ہیں۔
پارٹی کے سابق ایم پی غلام رسول بلیاوی نے بھی نتیش کمار پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی خاموشی توڑ دیں
بظاہر یہ لگتا ہے جنتادل یو میں مسلم لیڈروں اور کارکنوں کی کوئی اوقات اور حیثیت نہیں ہے -ان کو بس ایک انتخابی ٹول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔قدرے معتدل اور سماجوادی نظریہ پر یقین رکھنے والے پارٹی ترجمان “سشاسن بابو”کے سیاسی صلاح کار قد آور لیڈر کے سی تیاگی بھی اپنی پارٹی کو بل کی حمایت سے نہ روک سکے-وہ بھی نتیش کی طرح خاموش ہیں
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگلے سال بہار میں اسمبلی الیکشن ہیں تو کیا نتیش کو اب مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں یا ان کو یقین ہے کہ ہم کچھ بھی کرلیں مسلمان کہیں نہیں جانے والے وہ ان کی چوکھٹ کا عادی ہوگیا ہے۔لیکن کیا بی جے پی ان کو مسلمانوں میں ویلن بناکر کمزور کرنا چاہتی ہے ؟کیونکہ بہار میں ایک نیا سیاسی فیکٹر پی کے یعنی پرشانت کشور بھی پرتول رہا ہے ،کیاجارہا ہے کہ ان کو بھی بی جے پی کا آشیرواد حاصل ہے ان کا ٹارگٹ مسلم ووٹر ہیں-
سیاسی پارٹیوں اور ان کے ساتھ جڑے مسلم لیڈروں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ روایتی سیاست کا دور چلا گیا ہے۔کچھ دنیا دار مولویوں ،دوچار مدرسوں ،خانقاہوں کے ذمہ داروں کو اکٹھا کرنا،حمایت میں مشترکہ اپیلیں جاری کروانا،ان کی “خدمت “کردینا،جیسے ڈھونگ چلنے والے نہیں ہیں سوشل میڈیا نے عام آدمی کو بھی نہ صرف سیاسی طور پر بیدار کردیا ہے بلکہ اس نے سی سی ٹی وی کیمرے اور ایکسرے کا بھی کام کیا ہے جو اندر تک کے حالات اور کچا چٹھا سامنے رکھ دیتا ہے-سب کی جنم کنڈلی اس کے پاس ہے۔کون کہاں سے بول رہا ہے اور کون کہاں سے کھیل رہا ہے اس کو جانکاری مل جاتی ہے –
جنتادل یو نے شاید مسلمانوں کو بے وقوف مان کر ایک ایسے بل کی حمایت کی ہے جس کو بی جے پی اور اس کے علاوہ سب نے سختی سے مسترد کردیا ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم سماج جنتادل یو کے اس وشواس گھات کو شاید ہی بھولے۔کیا واقعی ایسا ہوگا ؟ بلا شبہ بہار کی جنتا سے بہتر سیاسی پرکھ اور کسی کے پاس نہیں ہے