تحریر:انل جین
ایمرجنسی کا مطلب ہے ہندوستانی جمہوریت کا ایک انتہائی تاریک اور شرمناک باب….ایک ڈراؤنا خواب…ایک برا دور!پورے 47 برس ہو گئے جب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنےاقتدار کی حفاظت کےلئے ایمرجنسی لاگو کرکے پورے ملک کو قیدخانہ میں تبدیل کردیا تھا ۔ اپوزیشن جماعتوں کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ سنسر شپ کے نفاذ سے اخبارات کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ تمام آئینی ادارے جیسے پارلیمنٹ، عدلیہ، ایگزیکٹیو وغیرہ اندرا گاندھی کے باورچی خانے میں تبدیل ہو چکے تھے، جس میں وہی پکتا تھا ، جو وہ اور ان کےبیٹے سنجے گاندھی چاہتے تھے ۔
حکومتی وزراء سمیت حکمراں جماعت کے تمام لیڈروں کی حیثیت ماں بیٹے کے آردرلیوں سے زیادہ نہ تھی۔ بالآخر 21 ماہ کے بعد جب انتخابات ہوئے تو عوام نے اپنے حق رائے دہی کے ذریعے پرامن طریقے سے اس آمریت کے خلاف بغاوت کردی اور ملک کو ایمرجنسی کی لعنت سے نجات ملی تھی۔
ایمرجنسی کے بعد پانچ پارٹیوں کے انضمام سے بننے والی جنتا پارٹی کی حکومت نے کوئی قابل ذکر کام کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن آئینی دفعات کا سہارا لے کر اس نے ملک پر دوبارہ آمریت مسلط کرنے کا راستہ بہت مشکل بنا دیا تھا۔ ایسا کرنا حکومت کا بنیادی فریضہ تھا جو اس نے دیانتداری سے ادا کیا۔ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جمہوری اقدار اور شہری حقوق کو ہائی جیک کرنے کا ہر بار صحیح اعلان کر کے کیا جائے، یہ ضروری نہیں۔ یہ کام جمہوری غلاف اور قواعد و ضوابط کی آڑ میں بھی کیا جا سکتا ہے جو پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل ہو رہا ہے اور ہولناک شکل میں ہو رہا ہے۔
آج اگر ہم اپنے سیاسی اور آئینی اداروں کی موجودہ شکل اور ان کے طرز عمل کو ایک وسیع تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج ملک ایمرجنسی سے بھی بدتر دور سے گزر رہا ہے۔ اندرا گاندھی نے آئینی دفعات کا سہارا لے کر ملک پر ایمرجنسی لگائی تھی لیکن آج باضابطہ طور پر ایمرجنسی نافذ کیے بغیر وہ سب کچھ ہو رہا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ جو ایمرجنسی کے دوران ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمرجنسی کے دوران سب کچھ نظم و ضبط کے نام پر کیا جاتا تھا اور آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ قوم پرستی (راشٹر واد)کے نام پر ہو رہا ہے۔
بی جے پی میں اٹل-اڈوانی دور کے خاتمے کے بعد گزشتہ برسوں میں ایسے رجحانات مضبوط ہوئے ہیں، جن کا جمہوری اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت اور پارٹی میں تمام اختیارات کسی ایک گروہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک فرد کے پاس ہیں۔
نریندر مودی ملک اور بیرون ملک جہاں بھی جاتے ہیں، ان کے ’پرجوش حامیوں‘ کا اسپانسرڈ گروپ انہیں دیکھ کر مودی-مودی کا شور مچاتا ہے اور مودی ایک راک اسٹار کی طرح نظر آتے ہیں۔ تاریخ اور سائنس کی عجیب و غریب معلومات پر اس طرح کی محفلوں میں تقریروں کے دوران ان کے منہ سے نکلنے والی تالیوں پر ان کی متکبرانہ مسکراہٹ حیران کن ہوتی ہے۔
ایمرجنسی کے دوران کانگریس کے اس وقت کے صدر دیوکانت بارواہ نے چاپلوسی اور سیاسی منافقت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ’اندرا ز انڈیا – انڈیااز اندرا‘ کا نعرہ پیش کیا تھا۔ آج بی جے پی میں امت شاہ، جے پی نڈا، شیوراج سنگھ چوہان، دیویندر فڈنویس وغیرہ سے لے کر نچلی سطح تک کے بہت سے لیڈر ہیں، جو نریندر مودی کو وقتاً فوقتاً خدائی طاقت کا مجسمہ بتانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ویسے اس سلسلے کی شروعات وینکیا نائیڈو سے ہوئی جو اس وقت ملک کے نائب صدر ہیں اور کچھ دنوں بعد ریٹائر ہونے والے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل بی جے پی صدر جے پی نڈا نے تونہ صرف دیوکانت بارواہ بلکہ اپنی پارٹی کے باقی لیڈروں کو بھی شکست دے کر سیاسی چاپلوسی کی ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی دیوتاؤں کے بھی لیڈر ہیں۔
آج ملک میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جسے جمہوریت کا نگراں کہا جاسکے، جس کی جمہوری اقدار سے وابستگی شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ ایمرجنسی کے دوران جس طرح پرعزم عدلیہ کی وکالت کی جاتی تھی، آج نہ صرف حکمران جماعت بلکہ عدلیہ سے بھی ایسی ہی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ یہی نہیں حکومت کے وزرا ءعدالتوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ انہیں کیسے فیصلے دینے چاہئیں۔
زیادہ تر مقدمات میں عدالتوں کے فیصلے بھی حکومت کی منشاء کے مطابق ہوتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج عوامی پلیٹ فارمز سے حکمراں پارٹی کے لیڈروں سے لے کر وزیر اعظم مودی تک کی تعریفیں کر رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ’مناسب انعامات‘ وصول کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ساکھ اور معتبریت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اسے ایک طرح سے الیکشن وزارت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی الیکشن کا پروگرام وزیراعظم اور ان کی پارٹی کی سہولت کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران ہم نے اس کی مثالیں دیکھی ہیں کہ کس طرح گوا، منی پور، بہار، مدھیہ پردیش، کرناٹک، اروناچل پردیش، میگھالیہ، مہاراشٹرا وغیرہ ریاستوں میں انحراف اور گورنروں کی مدد سے انتخابات میں دیئے گئے مینڈیٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مہاراشٹر میں اس وقت بھی یہی کھیل دہرایا جا رہا ہے۔
پچھلے آٹھ سالوں سے ملک، حکمران پارٹی کے ذریعہ راجیہ سبھا انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے لئے اپوزیشن ایم ایل ایز کی ہارس ٹریڈنگ کا بھی مشاہدہ کر رہا ہے۔
بیوروکریسی کا عوام اور آئین کے تئیں کوئی جوابدہی نہیں رہا۔ چند مستثنیات کو چھوڑ کر پوری بیوروکریسی حکمران جماعت کی مشینری کے طور پر کام کرتی نظر آتی ہے۔ حق اطلاعات قانون کو عملی طور پر غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔ سی بی آئی، محکمہ انکم ٹیکس، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی ایجنسیاں اپوزیشن لیڈروں اور سماجی کارکنوں، ادیبوں اور دانشوروں کو ہراساں کرنے کا آلہ بن گئی ہیں جو حکومت سے متفق نہیں ہیں۔ اس کام میں بھی عدلیہ بالواسطہ طور پر حکومت کی مدد کرتی ہے۔
میڈیا بنا سرکار کا دم چھلا
میڈیا جسے ہمارے ملک میں جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیا گیا ہے اس کی حالت بھی بہت تشویشناک ہے۔ آج کی صحافت ایمرجنسی کے بعد جیسی نہیں رہی۔ اس کی بڑی وجہ میڈیا کے شعبے میں بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا داخل ہونا اور میڈیا گروپس کے درمیان زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا مقابلہ ہے۔ منافع خوری کے اس رجحان نے میڈیا کے اداروں کو مکمل طور پر عوام دشمن اور حکومت کا دم چھلا بنا دیا ہے۔
حکومت نے میڈیا کو دو طریقوں سے اپنا پالتو بنایا ہے – اس کے منھ میں اشتہارات ٹھونس کریا پھر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ اس کی گردن مروڑنے کاڈر دکھا کر۔ اس سب کے سبب سرکاری اورغیر سرکاری میڈیا کی تفریق تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
ایک نیا اور خطرناک رجحان جو پچھلے پانچ چھ سالوں میں پروان چڑھا ہے وہ ہے حکومت، حکمران جماعت اور میڈیا کی طرف سے سینا کی حد سے زیادہ تعریف۔ یہ درست ہے کہ ہماری مسلح افواج کو اکثر ہر قسم کے مشکل چیلنجز سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے، اس لیے ان کا احترام کیا جانا چاہیے، لیکن انھیں کسی بھی قسم کے سوال سے بالاتر سمجھا جانا چاہیے اور عسکری قیادت ایک طرح سے حکومت کی حمایت میں سیاسی بیانات دیتی ہے۔ یہ عسکری قوم پرستی کی طرف ایک قدم ہے۔
ایمرجنسی کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا بلکہ اقتدار، خود مختاری، شخصی عبادت اور سفاکیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کا نتیجہ تھا۔ اب ایک اور بھی خوفناک منظر دکھائی دے رہا ہے۔
تمام اہم فیصلے پارلیمنٹ تو کیا ،یونین کونسل کی بھی عام رائے نہیں کئے جاتے۔ صرف اور صرف وزیر اعظم اور ان کے اہم سپاہ سالار یعنی وزیر داخلہ امت شاہ چلاتےہیں ۔
ایمرجنسی کے دوران سنجے گاندھی اور ان کی جماعت کا کردار اقتدار کے کام میں غیر آئینی مداخلت کی ایک مثال تھا، تو آج وہی کردار راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ادا کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ کو تقریباً غیر متعلقہ بنا دیا گیا ہے۔ مفاد عامہ کے معاملات میں عدلیہ کے گاہے بگاہے احکامات کی حکومتیں بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہیں اور عدلیہ خاموش رہتی ہے۔ اختلاف رائے کی آوازوں کو بے رحمی سے خاموش کرنے یا فرضی حب الوطنی کے شور میں ڈبونے کی کوششیں صاف نظر آتی ہیں۔
ایمرجنسی کے دوران اور اس سے پہلے حکومت کے خلاف بولنے والوں کو امریکہ یا سی آئی اے کا ایجنٹ کہا جاتا تھا، چنانچہ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو پاکستان نواز یا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ ایمرجنسی میں اندرا گاندھی کے بیس نکاتی اور سنجے گاندھی کے پانچ نکاتی پروگرام زور و شور سے تھے، پھر آج ترقی اور ثقافتی قوم پرستی کی آڑ میں ہندوتوا کے ایجنڈے کو تیزی سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس ایجنڈے کے تحت اقلیتوں، دلتوں اور قبائلیوں کو طرح طرح سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد سے باقاعدہ جمہوری نظام چل رہا ہے لیکن جمہوری اداروں، رسم و رواج اور عقائد کا کٹاؤ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ عوام کے شہری حقوق کو خفیہ طور پر سلب کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران اس سلسلے میں غیر معمولی رفتار آئی ہے اور کورونا وبائی مرض نے تواس سلسلے میں ’جذام میں خارش‘ کا کام کیا ہے۔ اس وبا کی آڑ میں حکومت نے پارلیمنٹ اور آئین کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی من مانی فیصلے کیے ہیں اور اب بھی کر رہی ہے اور عوام کے بنیادی حقوق چھین رہی ہے۔ کورونا انفیکشن پر قابو پانے کے نام پر لاک ڈاؤن، کورونا کرفیو اور دیگر طریقوں سے ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر کے لوگوں کی پرائیویسی اور شہری آزادیوں کو مکمل طور پر ہائی جیک کر لیا گیا۔ ایسے اکثر مواقع پر عدلیہ یا تو خاموش تماشائی بنی رہتی ہے یا پھر مداخلت کا ہلکا سا بہانہ بنا کر حکومت کے ساتھ جھنجھلاہٹ شروع کر دیتی ہے۔
ایمرجنسی کے دوران مرکز سمیت تقریباً تمام ریاستوں میں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اس وقت کی مخالفت آج کی طرح شائستہ نہیں تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا عوام سے رابطہ تھا اور اپوزیشن لیڈروں کی ساکھ تھی۔ اس لیے ایمرجنسی کے دوران حکومت نے تمام اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کو انٹرنل سیکورٹی ایکٹ کی طرح جیلوں میں ڈال دیا تھا۔
تاہم اس وقت بی جے پی بھی مرکز کے ساتھ ملک کی نصف سے زیادہ ریاستوں میں اکیلے یا اتحادیوں کے ساتھ برسراقتدار ہے۔ اس صورتحال کے خلاف ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کی طاقت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
وہ کمزور قوت ارادی اور قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ان میں جدوجہد کی رسمیں کبھی پروان نہ چڑھ سکیں، اس لیے ان کا سڑک سے رشتہ ٹوٹ گیا، وہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی حالت بھی کانگریس سے بہتر نہیں ہے۔
اپوزیشن کی یہ سنگین صورتحال بھی حکومت کے آمرانہ ہونے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
(بشکریہ: ستیہ ہندی ڈاٹ کام ، یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)