محمد آصف اقبال، نئی دہلی
گزشتہ سال 2020کے آخرمیں کووڈ۱۹ کی وبا کچھ کم ہوتی نظر ہی آرہی تھی کہ ایک بار پھر اس کی دوسری لہر چھہ ماہ کے اندر ہی جو تقریبا ً مارچ 2021سے شروع ہوئی ،نے بڑے پیمانہ پر اپنے اثرات ظاہر کرنا شروع کردیئے ہیں۔عام خیال یہ ہے کہ دوسری لہر میں پہلی کے بالمقابل نوجوانوں کو بیماری نے زیادہ متاثر کیا ہے۔برخلاف اس کے حکام نے Centre’s Integrated Disease Surveillance Programme،(IDSP)کی نگرانی میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلی لہر میں تقریباً31%فیصد مریض(اسپتالوں میں داخل ہونے والے اور اسپتالوں سے باہر)30سال کی عمر کے تھے ۔جبکہ دوسری لہر میں ایک فیصد کے اضافہ کے ساتھ 32%لوگ 30سال کیعمر کے ہیں۔وہیں 30سے 40سال کے افراد کی تعداد پہلی اور دوسری لہر میں 21% فیصد ہے ،جو یکساںہے۔لیکن دوسری لہر نے خوف کا ماحول اس وقت پیدا کردیا جبکہ لوگوں کو سانس لینے میں دشواری پہلے کے مقابلہ زیادہ ہونے لگی۔یہ تعداد پہلی لہر میں 41.7%تھی جبکہ دوسری لہر میں بڑھ کر47.5%فیصد ہوگئی۔وہیں ایسے افراد جنہیں آکسیجن کی فوری ضرورت کا مسئلہ پیش آیا ،ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔پہلی لہر میں ایسے افراد کی تعداد 41.1%فیصد تھی لیکن دوسری لہر میں یہ تعداد 54.5%ہوچکی ہے اور مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔اس کے باوجود تقریباً70%متاثرین وہ ہیں جو 40سال اور اس سے زیادہ عمر کے ہیں۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ بڑی عمر کے لوگ دوسری لہر میں بھی اس بیماری سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔دوسری جانب 20سال سے کم عمر کے نوجوان بھی اس بیماری سے دوسری لہر میں زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔پہلی لہر میں 0-19سال کی عمر کے لوگ 4.2%فیصد تھے جبکہ دوسری لہر میں 5.8%فیصد تک یہ تعداد پہنچ چکی ہے۔
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق ‘Susceptible, Undetected, Tested (positive), and Removed Approach” (SUTRA) model کے تحت IITکانپور اور حیدرآبادکے سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ماہ مئی کے درمیان تک متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ تعدادموجودہ متاثرین کے نتیجہ میں دیگر افراد کو متاثر کرتے ہوئے 33سے35لاکھ تک اپنی انتہا ئی اونچائی تک پہنچ سکتی ہے۔لیکن مئی کے اختتام تک ڈرامائی انداز میں بہت تیزی کے ساتھ اس میں کمی آنا بھی شروع ہوجائے گی۔دوسری جانب سائنسدانوں کا یہ بھی اندازہ ہے کہ دہلی، ہریانہ، راجستھان اور تلنگانہ میں مزید نئے کیسس25-30اپریل تک دیکھنے میں آئیں گے جبکہ مہارشٹر اور چھتیس گڑھ پہلے ہی نئے معاملات میں عروج پر پہنچ چکے ہیں۔یہ وہ مختصر صورتحال ہے جو ہمارے سامنے ہے۔خود ہمارے جاننے والے،دوست واحباب اوراعزا و اقارب نہ صرف اس مہلک بیماری سے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ شرح اموات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ساتھ ہی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ حاصل ہونے والی خبروں اور اطلاعات نے خوف کے ماحول میں نیا رنگ پیدا کر دیا ہے۔خصوصاً سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمس کے ذریعہ حاصل ہونے والی پوسٹوں نے اچھے خاصے انسانوں کو نفسیاتی مریض بنانا شروع کر دیا ہے۔اتفاق سے آج ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں لکھا تھا کہ ‘کیا ہم سب مرجائیں گے’۔یہ پوسٹ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فی الوقت ہم کن حالات سے دوچار ہیں اور ہماری قوت برداشت،خود اعتمادی اور نفسیاتی صورتحال کیا سے کیا ہوچکی ہے۔اور قابل تذکرہ بات یہ بھی ہے کہ یہ صورتحال ان لوگوںکی ہے جو پڑھے لکھے ہیں،باشعور کہے جاتے ہیں،شہروں میں قیام پذیر ہیں اور وسائل کو کسی نہ کسی حدتک استعمال کرنے کی حالت میں ہیں۔
برخلاف اس کے ایک بڑی تعداد ہے جو گائوں اور دیہاتوں میں رہتی ہے۔جہاں نہ کووڈ ۱۹کا ٹیسٹ ہو رہا ہے،نہ ہی وہ اس بیماری کے سلسلے میں بیدار ہیں،نہ وہاں علمی اور شعوری سطح بلند ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہاں وسائل بھی موجود نہیں ہیں۔لوگ بیمار وہاں بھی ہو رہے ہیں، اموات بھی ہورہی ہیں،لیکن خوف کا وہ ماحول وہاں نہیں ہے جو شہروں میں اور پڑھے لکھے طبقے کے درمیان نظر آرہا ہے۔اس موقع پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جہاں علم ہوگا،شعور ہوگا وہیں بیداری اور حالات کو سمجھنے اور اس سے واقف ہونے کا ماحول ہوگا، اور یہ بات درست بھی ہے۔اس کے باوجود ان دو صورتحال کے درمیان دنیا سے جاتے ہوئے بظاہر بہت کچھ کھوجانے کا غم ہے جس نے مزید انسان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔دوسری جانب وہ غریب عوام ہے جس کا کہنا ہے کہ مربھی جائیں گے تو کیا غم ہے،زندہ رہنے کے لیے تو ہر دن ایک آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے،چند پیسوںکے لیے عزت نفس تار تار ہوجاتی ہے،کئی کئی دن کی کمائی جب ایک ماسک کے ذرا سا نیچے ہونے پر دوہزار کا چالان کاٹ کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے تو اس حالت میں دل کس طرح سے تڑپ اٹھتا ہے اور روح کس طرح بے چین ہو جاتی ہے،یہ ہم ہی جانتے ہیں۔کیونکہ یہ چند روپے ہی تو تھے جو کسی کی دوا کا ذریعہ بننے والے تھے،کسی کے تن پر کپڑوں کوڈھانپنے کا سبب بنتے،دن بھر کی بھوک اور افلاس کو کچھ کم کرتے ،ادھار اور قرض کی ادائیگی کی صورت میں کچھ عزت پانے کا ذریعہ بن جاتے اور نہ جانے کیا کیا امکانات تھے،لیکن اب تو کچھ بھی نہیں بچا اور مسائل جوں کے توں باقی ہیںتو اس زندگی سے بھی کیا فائدہ؟جہاں غریب اور اس کی غربت پر رحم نہیں آتا اور آئے بھی کیوں ؟کیونکہ یہ نظام اور اس نظام سے وابستہ لوگ دراصل ظلم پر مبنی نظریہ پر صدیوں سے عمل پیرا رہے ہیں۔لہذا ایک جانب لاعلمی اور دوسری جانب غربت و افلاس نے موت کا ڈر بھی دل سے نکال دیا ہے اور اگر ڈر ہے بھی تو کیا غم ہے ؟کیونکہ غموں کی دھار تو زندہ رہتے ہوئے بھی زخم ہی دے رہی ہے۔
لیکن ایک بہت بڑا سوال ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے دل سے موت کا ڈر نکل چکا ہے یا جو موت کے ڈر سے خوف زدہ ہے۔کہ مرنے کے بعد کہاں جائو گے اور جہاں جائوگے تو وہاں کیا پائوگے؟اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔کیونکہ کووڈ ۱۹ کی دوسری لہر میں خصوصاً باشعور طبقہ ہی وہ طبقہ ہے جس کے پاس کرنے کے لیے ہر دو محاظ پر بہت کچھ ہے۔اس طبقہ کو چاہیے کہ جو کچھ بھی مہلت ملی ہے اس میں کچھ ایسا کر جائے،جس کے کرنے سے لوگوں کی امیدیں اُس سے وابستہ ہو جائیں۔یعنی انسانوں کی خیر و فلاح کے کام۔یہ خیر و فلاح کے کام کیا ہیں؟غالباً اردو پڑھنے لکھنے والے بخوبی جانتے ہوں گے۔اور اگر وہ جانتے ہیں تو پھر انہیں مہلت عمل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے!