تحریر :قمر فلاحی
جس طرح زکوۃ نکالنا فرض ہے اسی طرح مدات زکوۃ کا علم بھی فرض ہے کہ نکالی گئ رقم کو ہم کہاں کہاں خرچ کریں گے ۔یہ تقسیم اللہ تعالی نے کی ہے یعنی اللہ تعالی نے ہماری نکالی ہوئی رقم کو آٹھ جگہوں پہ خرچ کرنے کو کہا ہے اگر ہم اپنی وسعت بھر ان مدوں میں اپنی زکوۃ کی رقم خرچ نہیں کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی کا بٹوارہ ہمیں پسند نہیں ہے گویا ہم ابھی بھی خواہشات کے پیچھے چل رہے ہیں اور متقی بننے کی کوشش نہیں کر رہے ۔اور اس طرح اگر ہم نے دو چار مدوں میں اپنی رقم تقسیم کر دی تو اس کا مطلب یہ ہیکہ ہم بقیہ لوگوں کا حق مار رہے ہیں جو قیامت کےدن قابل سوال ہوگا۔
ایک اہم بات یا د رکھنے کی یہ ہےکہ مدات زکوٰۃ آٹھ ہیں گویا ایک مد میں 12.5 فیصد ہی خرچ کرنا ہے، حلانکہ دوسری مد والے شخص کا ملنا ناممکن ہو۔ اگر ہم نے ایک ہی مد میں اپنی رقم خرچ کر ڈالا تو گویا ہم نے دوسرے کا حق مار ڈالا۔
زکوٰۃ کے تعلق سے کچھ اہم باتیں ذہن میں رکھنی چاہیے:
اول یہ کہ زکوٰۃ کی رقم جہاں سے لی جاتی ہے وہیں کے ضرورت مندوں پہ اسے صرف کیا جانا چاہیے الا آنکہ وہاں ضرورتمند نہ ہوں۔توخذ من اغنیاءکم و ترد الی فقراء کم [حدیث] میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
دوم :زکوٰۃ کی رقم کا رمضان کے مہینے میں یا جس مہینہ میں نکالی گئی ہو خرچ کردینا لازم نہیں ہے ،اسے سال بھر میں بھی خرچ کیا جاسکتاہے ۔
سوم : زکوٰۃ بیت المال کے ذریعہ بانٹی جائے اگر یہ نظم نہ ہوتو جہاں تک ممکن ہو اجتماعی شکل میں بانٹی جائے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ التوبہ 60
(1) فقیر: فقیر وہ شخص ہے جو مانگنے سے گریز کرے، جبکہ وہ ضرورتمند بھی ہو،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ سب سے اوپر رکھا ہے۔ ابن قتادہ کے نزدیک جسے مزمن مرض لاحق ہوگیا ہو وہ بھی اس زمرے میں آتا ہے، آج کل جیسے کینسر۔ابن عمر کہتے ہیں کہ فقیر وہ شخص نہیں ہے جس کے پاس مال نہ ہو، بلکہ فقیر وہ شخص ہے جو محروم ہے جو طلب کرتا ہے مگر پاتا نہیں( کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے ۔)
(2)مسکین: مسکین وہ شخص ہے جو گھوم گھوم کر مانگتا رہتا ہے خواہ وہ ضرورت مند ہو یا نہ ہو ۔ابن قتادہ کے نزدیک صحیح سالم جسم والا مسکین ہے۔اس رائے کے قائل ابن عباس، مجاہد، حسن بصری ،ابن زید،اور ابن جریر وغیرہ ہیں ۔عبید اللہ بن عدی بیان کرتے ہیں کہ دو شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنےآئے آپؐ نے اپنا رخ پھیر لیا مگر وہ لوگ اپنی باتوں پہ قائم رہے اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اگر تم بضد ہوتو تمہیں دے دیتا ہوں مگر یہ جان لو کہ مالدار اور مضبوط کمانے والوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ حقیقت بیان کرکے بغیر ضرورت مند کو بھی زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ۔رواه احمد ، وابو داود ، والنسائي باسناد جيد قوي قال : ليس المسكين بهذا الطواف الذي يطوف على الناس ، فترده اللقمة واللقمتان ، والتمرة والتمرتان . قالوا : فما المسكين يا رسول الله ؟ قال : الذي لا يجد غنى يغنيه ، ولا يفطن له فيتصدق عليه ، ولا يسأل الناس شيئا رواه الشيخان : (البخاري ومسلم)
(3) عاملین: زکوٰۃ وصولنے والے: زکوٰۃ کی رقم وصولنے والے کا بھی زکوٰۃ میں حصہ ہے شرط یہ ہےکہ وصولنے والا کوئی سید نہ ہویعنی آل رسول ؐسے اس کی نسبت نہ ہو۔
(4) تالیف قلبی، دلجوئی:کسی کو دین اسلام سے قریب کرنے کیلئے زکوٰۃ کی رقم دی جائیگی ،جیسا کہ صفوان بن امیہ کےساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ فرمایا۔اس وقت وہ مشرک تھے۔(مسند احمد)
یا پھر نئے مسلمان کی ضروریات کی تکمیل کیلئے ان کے اسٹیبلشمنٹ کیلئے ،تاکہ وہ دین اسلام پہ جما رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع بن حابس،عیینہ بن بدر، علقمہ بن علاثہ اور زید الخیر کو زکوٰۃ کی رقم عطا کی جبکہ یہ لوگ مسلمان تھے۔اور آپ ؐ نے فرمایا کہ میں ان کی تالیف قلبی کر رہا ہوں ۔(عن ابی سعید فی الصحیحین)
(5) گردن چھڑانے میں :کسی کو غلامی سے آزاد کرانے میں ۔یہ ابن عباس ،احمد بن حنبل ،مالک اور اسحاق کا قول ہے ۔آج کل بہت سارے لوگ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ،انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے ،ایسے لوگوں پہ بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ۔(جو لوگ شادی کرنا چاہتے ہوں تاکہ گناہ سےبچ سکیں،یا شادی کرنے کے بعد ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ بیوی کو طلاق دینا لازم ہورہا ہو مگر اداء مہر کی پریشانی ہو ایسی صورت میں ان لوگوں کی مدد کرنے کا اشارہ اس حدیث میں ملتاہے۔ یا یرید العفاف میں اس کی وسعت پائی جاتی ہے) یا آج کل جیسے بہت سارے لوگ بلا وجہ ڈوری ایکٹ کے شکار بنائے گئے ہیں ۔اور اس کی وجہ سے ان کا نیا نکاح ممکن نہیں ہے ۔(و اللہ اعلم )
وعن أبي هريرة – رضي الله عنه – أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال : ثلاثة حق على الله عونهم : الغازي في سبيل الله ، والمكاتب الذي يريد الأداء ، والناكح الذي يريد العفاف۔ رواہ الامام احمد و اھل السنن الا ابا داود۔
وفي المسند عن البراء بن عازب قال : جاء رجل فقال : يا رسول الله ، دلني على عمل يقربني من الجنة ويباعدني من النار . فقال : أعتق النسمة وفك الرقبة . فقال : يا رسول الله ، أوليسا واحدا ؟ قال : لا ، عتق النسمة أن تفرد بعتقها ، وفك الرقبة أن تعين في ثمنها
(6)الغارمون، قرضوں میں دبے ہوئے لوگ: قرضوں میں دبے ہوئے لوگ۔ قرض کی اتنی بڑی رقم جس کی وجہ سے قرض دار کی نیندیں حرام ہوگئی ہوں ،یا اس مقروض کا استحصال ہورہا ہو۔وعن أبي سعيد قال : أصيب رجل في عهد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في ثمار ابتاعها ، فكثر دينه ، فقال النبي – صلى الله عليه وسلم – تصدقوا عليه . فتصدق الناس فلم يبلغ ذلك وفاء دينه ، فقال النبي – صلى الله عليه وسلم – لغرمائه : خذوا ما وجدتم ، وليس لكم إلا ذلك رواه مسلم
(7)في سبيل الله : اس سے مراد غازی ہیں ۔ فی سبیل اللہ کو فی زمانہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے حتی کہ اب صرف ایک مصرف جو مدارس کی تعلیم وتربیت ہے اسے ہی فی سبیل اللہ مانا جانے لگا ہے ،یہ دین میں اضافہ کی کوشش ہے۔اگربالفرض مدرسے والوں کا حق بھی بنتا ہے تو صرف ساڑھے بارہ فیصد نہ کہ ساری رقم اٹھاکر مدرسے والوں کو اٹھاکردیدینا۔
(8) ابن السبيل : اس سے مراد وہ مسافر ہیں جن کا دوران سفر زاد راہ ختم ہوگیا ہو یا لٹ گیا ہو ،ایسے لوگوں کی اتنی مدد کرنا ہے کہ وہ بھلی بھانتی اپنے گھر تک پہنچ سکیں ۔