جھولی میں جو ہے وہی پروسا جا رہا ہے !
اتواریہ ؍ شکیل رشید
کرناٹک میں ہمارے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے ۔ ویسے یہ کوئی انوکھی خبر نہیں ہے ، لوگ جانتے ہی ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دستِ راست امیت شاہ سال کے بارہ مہینے ہی ’ انتخابی مہم ‘ کے موڈ میں رہتے ہیں ۔ موقع چاہے جو ہو ، ان کی تقریریں یوں ہوتی ہیں جیسے کہ کسی ریاست کی اسمبلی یا ملک کی پارلیمنٹ کے الیکشن کے موقع پر کی جاتی ہیں ۔ موضوع منتخب ہیں ، اپوزیشن پر حملہ ، سارے مسائل کا ذمہ دار کانگریس کو قرار دینا اور آج جو مسائل اٹھ رہے ہیں ان کی ذمہ داری ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے سر تھوپ دینا ۔ اور پھر مسلمان تو ہیں ہی ، منتخب سے بھی کہیں زیادہ منتخب موضوع ۔ کرناٹک ایک ایسی ریاست ہے جو ان دنوں ’ ہندتو ‘ کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے ۔ کبھی مدھیہ پردیش کو ’ ہندتو ‘ کی تجربہ گاہ کہا جاتا تھا ، پھر گجرات کو تجربہ گاہ بنایا گیا ۔ اور اب کرناٹک تجربہ گاہ ہے ۔ یہاں دو بڑے تجربے کیے گیے ہیں ، ایک تو حجاب یا برقعہ پر ’ تعلیمی اداروں ‘ میں پابندی لگائی گئی ہے ، اور اس کے لیے ایسے حالات پیدا کیے گیے جیسے کہ ملک کا سب سے بڑا مسٔلہ حجاب ہی ہے ۔ عدالت کو بھی حجاب مخالف فیصلہ دینا پڑا ہے ۔ ایک تجربہ ’ حلال ‘ پر پابندی لگانے کا کیا جا رہا ہے ، یعنی کوشش یہ ہے کہ حلال گوشت اور حلال کھانا نہ مل سکے ۔ خیر جسے حرام کھانا ہے وہ کھائے جو حلال کھاتے ہیں وہ تو حلال ہی کھائیں گے ، بالکل اسی طرح جیسے حجاب پر پابندی کے باوجود وہاں نہ حجاب پہننا بند ہوا ہے اور نہ ہی برقع پہننا ۔ بہرحال بات چل رہی تھی کرناٹک کے الیکشن کی جو نئے سال میں ہونا ہیں ، اور امیت شاہ ، جنہیں چانکیہ کہا جاتا ہے ، وہاں انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں ۔ اب تک انہوں نے کرناٹک اور مہاراشٹر کے درمیان جاری سرحدی تنازعہ پر کوئی بات نہیں کی ہے ، ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں وہ اس پر بات کریں اور کوئی حل نکالیں ۔ اور ممکن ہے کہ وہ اس موضوع پر بات ہی نہ کریں ، انہیں تو کرناٹک والوں کے ووٹ چاہیے مہاراشٹر میں رہنے والوں کے تھوڑی ۔ بی جے پی اور چانکیہ یہ نہیں چاہیں گے کہ سرحدی تنازعہ پر کوئی ایسی بات کہیں جس سے کرناٹک میں ووٹ ان کے ہاتھ سے پھسل جائیں ۔ یہ سب ہتھکنڈے اسی لیے تو اختیار کیے جاتے ہیں کہ ووٹ پھسلنے نہ پائیں ! ویسے کرناٹک کو بسو راج بومئی کی سرکار نے کچھ نہیں دیا ہے ۔ یہ سرکار خرید و فروخت پر بنی ہے ، اسے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے ، ملائی بھی کھلانا پڑتی ہوگی ، اس کے پاس کہاں اتنا وقت کہ کرناٹک کی اور وہاں رہنے والوں کی بہتری کی سوچے ۔ لوگ بومئی کی سرکار سے بہت خوش نہیں ہیں ، لہذا امیت شاہ انتخابی مہم میں اپوزیشن پر حملے کر رہے ہیں ، پی ایف آئی پر پابندی کا کریڈٹ لے رہے ہیں اور رام مندر کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں ۔ اب وہ کریں بھی کیا ، جس کی جھولی میں جو ہوگا وہ وہی پروسے گا ۔ اور ان سب کی جھولی میں فرقہ پرستی کے سوا ہے اور ہے بھی کیا !
تحریر :شکیل رشید