کلیم الحفیظ ۔دہلی
ملک میں ہر طرف قیامت ہے،اس قیامت کی توقع کسی نے بھی نہیں کی تھی اور نہ اس بات کی امید تھی کہ بھارت جیسے وشال دیش میں صحت کے ادارے اس قدر کھوکھلے ثابت ہوں گے کہ ایک ہلکی سی ہوا سے اکھڑ جائیں گے۔صحت کے معاملے میں بھارت کو دنیا میں قابل اعتبار مقام حاصل ہے ،یہاں کی ڈگریوں کو امریکہ اور برطانیہ میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کے اسپتالوں میں بیرون ملک کے مریض بھی علاج کے لیے کثرت سے آتے ہیں ۔لیکن یہ ذکرمعمول کے حالات کا ہے ۔ہنگامی حالات میں بھارت کے اسپتالوں کا نظام اور حکمرانوں کا انتظام کس قدر شاخ نازک پر ٹکا ہے اس کا اندازہ اِن دنوں خوب ہورہا ہے۔روزانہ سینکڑوں مریض صرف آکسیجن کی کمی سے مر جاتے ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ ملک میں آکسیجن کے ذخائر نہ ہوں،یا کم ہوں ،ذخائر کافی ہیں،مزید آکسیجن بھی تیار کی جاسکتی ہے مگر حکمرانوں کی نااہلی نے سب کچھ برباد کردیا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ستر سال میں ہم نے اپنے ملک میں ضروری بنیادی سہولیات کے لیے کچھ خاص نہیں کیا ہے اور ادھر سات آٹھ سال تو جملے بازی میں گزار دیے ،اگر کچھ کیا ہے تو وہ صرف کرسی اور اقتدار کی سیاست ،کبھی ہمسایہ ممالک سے سرحد پر کشیدگی کرکے عوام کی توجہ حاصل کی ہے کبھی ذات پات اور منڈل اور کمنڈل کے نام پر ،کبھی بابری مسجد اور رام مندر کے نام پر ،آگے بھی کاشی اور متھرا کے نام پر اقتدر بچائے رکھنے کے منصوبے ہیں۔تعلیم ،صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ، تحفظ، امن و سکون،خوشحالی،سائنسی ایجادات،عدل و انصاف کا قیام ،اہل ملک کے درمیان خیر سگالی وغیرہ تو کبھی ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں رہے۔البتہ میڈیا مینجمنٹ کا ہنر ہم خوب جانتے ہیں،جس کے ذریعے شائننگ انڈیا کی چکا چوندھ میں عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے،کبھی میک ان انڈیا کا نعرہ لگاکر نوجوانوں کو پکوڑا تلنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ذرا سا چین نے کیا آنکھ دکھا ئی کہ بھارت کا میک ان اندیا سسٹم اوندھے منھ گرپڑا ،کبھی سوچھ بھارت ابھیان کے نام پر ملک کی تقدیر پر جھاڑو پھیری جاتی ہے اس لیے کہ سڑکوں ،نالیوں اور گلی کوچوں کی گندگی کی صورت حال تو پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔آتم نر بھربھارت اور گڈ گورنس کی پول آکسیجن سنکٹ نے کھول دی ہے ،کورونا جیسی ہلاکت خیز بیماری کو بھی ہلکے میں لیا جاتا ہے۔بیماری میں اضافے کے باوجود دیے جلا کر چراغاں کیا تا ہے،تالی اور تھالی بجوائی جاتی ہے،’ گوموتر‘ اور’ گوبر ‘کو دوا بتا یا جاتا ہے۔اگر آپ آزاد بھارت کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو کہیں بھی آپ کو ایسا نہیں لگے گا کہ ہمارے سیاست داں اور حکمران ملک اور اہل ملک کے سچے خیر خواہ ہیں۔بلکہ یہ حکمراں رہبروں کے بھیس میں لٹیرے ثابت ہوئے ہیں۔مرحوم راجیو گاندھی نے خود اقرار کیا تھا کہ سو روپے میں سے پندرہ روپے بھی ہدف تک نہیں پہنچتے۔سوئز بینکوں میں ہمارے سفید پوش نیتائوں کا کالادھن جمع ہے،بوفورس توپوں کی گھن گرج ابھی خاموش بھی نہیں ہوئی تھی کہ رافیل گھوٹالے کا شور سنائی دینے لگا ۔سرکاری کمپنیوں کو ٹھکانے لگاکر اڈانی اور امبانی کو فائدہ پہنچانے کا کھیل جاری ہے۔ہوائی اڈے،ریلوے اسٹیشن ،لاقلعہ اور تاج محل بیچے جارہے ہیں۔لوگ آکسیجن کی کمی سے موت کو گلے لگا رہے ہیں اور دہلی کے مکھیا کروڑوںروپے اشتہارات پر خرچ کررہے ہیں،ظاہر ہے جب گرام پردھان سے لے کر پردھان منتری کے منصب پر رہزن فائز ہوجائیں تو عوام کو بغیر آکسیجن کے ہی جینا پڑے گا،جو ناممکن ہے۔آج جب اسپتالوں کی چینخ و پکار،شمشان گھاٹوں کی لپٹیں،قبرستانوں سے واپس ہونے والی میتوں کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں سے آنسو نہیں خون ٹپکنے لگتا ہے۔کیا ویر عبدلحمید نے اس لیے جان دی تھی کہ اس کا بیٹاآکسیجن کی کمی سے مرجائے گا؟کیا ریمڈی سیور کی کالا بازاری اور آکسیجن کی لوٹ مار ہماری’’ پراچین سبھیتا‘‘ کا مذاق نہیں اڑا رہی ہیں،امریکہ میں ہائو ڈی موڈی اور گجرات میں نمستے ٹرمپ کی تقریب سے تو لوگ سمجھے تھے کہ واقعی بھارت وشو گرو بننے کے آئو ٹر پر کھڑا ہے۔لیکن ٹرمپ کی شکست نے تو ہمیں کسی کی شاگردی کے لائق بھی نہیں چھوڑاہے۔
میں سوچتا ہوں کہ کورونا کی یہ آفت ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن کی سزا ہے۔یہ سزا ہے عدلیہ کی ناانصافیوں کی ،یہ خدا کے گھر کو صنم کدے میں بدلنے کی سزا ہے،یہ اہل کشمیر کی سسکیوں کی سزا ہے،یہ نجیب کی ماں کے آنسوئوں کی سزا ہے،یا پھر اخلاق جیسے معصوموں کی آہ و فغاں کا انجام ہے،یہ ظالموں کو ان کے ظلم کی اور مظلوموں کو چپ چاپ ظلم سہنے کی سزا ہے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ زمین کی آفت سے تو تدبیروں سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر آسمانی آفتیں تو آسمان والے کو راضی کرکے ہی دور کی جاسکتی ہیں۔اس کے لیے ہمارے حکمرانوں کو توبہ کرنا ہوگی۔انھیں ظلم ونا انصافی،تعصب وحسد سے باز آنا ہوگا۔راجا جب اپنی رعایا میں بھید بھائو کرنے لگتا ہے۔جب راجا اپنا راج دھرم چھوڑ دیتا ہے تو آسمانی مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کی ناتجربہ کاری اورآر ایس ایس کی مسلم دشمنی نے ملک کی جڑیں تک کھوکھلی کردی ہیں۔جس آدمی نے گجرات سے باہر کا منظر نہ دیکھا ہواسے وزارت عظمیٰ پر بیٹھا دیا گیا،اس نے سیکھنے کے بجائے سکھانا شروع کردیا ،وہ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر دنیا کی سیر سپاٹے کو نکل پڑا،اس نے پارلیمنٹ اور اسمبلی کے الیکشن تو چھوڑیے لوکل باڈیز کے الیکشنوں تک میں اپنا فعال کردار نبھاکر وزارت عظمیٰ کے باوقار منصب کو ٹھیس پہنچائی۔اس کی نادانیوں نے دوست کم دشمن زیادہ پیدا کردیے جس کے نتیجے میں سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں اور سب ہمسائے ہم پر غرانے لگے ،اس کی بین الاقوامی سیاست کی خواہش نے بھارت کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا کہ کوئی بھی ملک ہماری سننے کو تیار نہیں۔اس نے نوٹ بندی کرکے معاشی دیوالیہ پن تک پہنچادیا،اس کی تالا بندی نے شمشان تک پہنچادیا،اس کو اپنے من کی بات بھی زبان سے بتانا پڑی کیوں کہ اس کا عمل اس کے من کا گواہ نہ بن سکا۔اس کی آبرو کی محافظ آرایس ایس کے پاس کیڈر تو تھا مگر حکمرانی آداب نہیں تھے۔اس نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی عداوت کی ٹیڑھی اینٹ پر رکھی،وہ رام راجیہ کے سپنوں کو ساکار کرنے میں لگ گئی۔اس نے ہندو کالونیوں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کے بورڈ لگائے ،اس نے رام کے مندر میں پیاسے کو پانی کے بجائے خون پلایا۔حالانکہ اس نے حکومت کی پردہ پوشی اور حمایت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یہ آرایس ایس کامیڈیا مینجمنٹ ہی ہے کہ ملک کی تباہی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس کے بھکت مودی جی کی جے جے کار کرتے ہیں۔حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے۔ملک کی عوام کے لیے اچھے دن ایک خواب بن گئے ہیں،حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے اقتدار کے استحکام پر متوجہ ہیں،بین الاقوامی سطح پر ساکھ مجروح ہوچکی ہے۔یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ حکمرانوں نے تیاگ اور بلیدان کا وہ راستا ہی تیاگ دیا ہے جو انھیں امن وانصاف کی طرف لیجاتا ہے جس کی منزل خوشحالی ہے۔لیکن عوام کو بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنا چاہئے کسی مداری کے کھیل سے مرعوب ہوکرخودکو اس کے سپرد نہیں کردینا چاہئے۔
ابھی کیا ہے کل اک اک بوند کو ترسے گا میخانہ
جو اہل ظرف کے ہاتھوں میں پیمانے نہیں آئے