تحریر:ابھے کمار
بلڈوزر راج میں بھارتی مسلمان آج بے حد دکھ سہہ رہا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اپنی زندگی اور سلامتی کے تعلق سے فکر مند ہیں۔ جب انسان اپنی جان کی فکر کرنے لگتا ہے تو پھر تعلیم ، روزگار اور ترقی کے سوالات کافی دور چلے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کودر پیش ایک نہیں بلکہ بہت سارے مسائل ہیں۔ ریاست کا کردار پہلے سے اور بھی زیادہ مسلم مخالف نظر آ رہا ہے۔ مرکز اور دیگر ریاستوں میں حکومت کرنے والے آئین سے زیادہ ہندوتو کے نظریہ پر کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ہندوتوکا نظریہ جمہوریت اور آئین مخالف ہے۔یہ اقلیت ، دلت ، آدیواسی اور خواتین کو برابری نہیں دے سکتا کیونکہ یہ ذات پات کے سماجی نظام میں یقین رکھتا ہے ۔بھگوا نظریہ سازوں نے یہ بات صاف طورپر کہی ہے کہ جن لوگوں کے مقدس مقامات بھارت سے باہر واقع ہیں، ان کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ اس طرح اقلیتوں کو بھارت کا سچا حب الوطن تب ہی مانا جائے گا، جب وہ اپنےمذہب کے اہم ستون کو ترک کر دیں ، وہ نہ صرف ملک کے باہر موجود مذہبی مقامات سے اپنا رشتہ توڑ لیں بلکہ اپنے طور طریقوں میں بھارتی کلچر کے نام پر برہمنی رسومات کو اپنا لیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ ملک کی اقلیت اپنے دین اور وطن دونوں سے محبت کرتے ہیں اور جب ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ ان کو ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا تو سمجھ لیجیے کہ مطالبہ کرنے والے کا منشا ٹھیک نہیں ہے۔ انتظامیہ اور پولیس فرقہ واریت کا شکار ہو چکی ہے۔ عدلیہ اورانسانی حقوق کے ادارے بھی اب سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر کام نہیں کر رہے ہیں۔ میڈیا حقائق کو پیش کرنے اور سچائی کے تمام پہلوؤں کو ایمانداری کے ساتھ سامنے لانے کے بجائے، فرقہ وارانہ آگ کو بھڑکانے کے لیے دن رات نفرت پھیلا رہا ہے۔آج حالات حد سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں رائے عامہ بھی بڑی حد تک فرقہ واریت کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔
سیاسیات کی کلاسوں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ فرقہ واریت کا تعلق ہندو مسلم تنازعہ سے ہے۔یہ بات غلط نہیں ہے لیکن یہ تشریح پوری طرح سے چیزوں کو بیان نہیں کر تی ہے۔ فرقہ وارانہ نظریہ مذہبی اقلیتوں (خاص طور پر مسلمانوں) کے علاوہ دلتوں، آدیواسیوں، پسماندہ ذاتوں اور خواتین کے خلاف نفرت کادوسرا نام ہے۔ ہندوتوطاقتوں کی کامیابی اس وجہ سے ہے کہ وہ اس نظریہ کا استعمال کرکے لوگوں کو آپس میں لڑا رہی ہیں اور لوگوں کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی طاقت کو کمزور کر رہی ہیں۔ آج بھارت کے اندر ایک بڑی تعداد میں پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر ان پڑھ تک بالواسطہ اور بالواسطہ اہانت رسولؐ کرنے والی نپور شرما کی حمایت کر رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ جب بار بار زہر کو اَمرِت کہہ کر پکارا جائے تو اس زہر کو بہت سارے لوگ امرت ہی سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ تبھی تو کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ آج کے حالات تقسیم ملک سے بھی زیادہ تشویشناک ہو چکے ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اُس وقت کم سے کم ایسے رہنما سیاست میں سرگرم تھے ، جو سیکولر ذہن کے تھے اور جنہوں نے ملک کی آزادی میں حصہ لیا تھا اور ان کو ہندو اور مسلمانوں دونوں اپنا لیڈر مانتے تھے۔ تب مظلوموں کو کم از کم اُن لیڈروں میں امید کی ایک روشنی دکھائی دیتی تھی ۔ لیکن آج ہندوستانی سیاست میں کوئی ایسا قدآور قائد نہیں ہے، جو مسلمانوں کے درد کو سمجھتا ہو اور ان کو انصاف دلانے کی طاقت رکھتا ہو۔ فرقہ پرست پارٹی کے لیڈر مسلمانوں کی توہین کرنے، ان کی تذلیل کرنے، ان پر تشدد کرنے اور ان کا قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ مگر جن سیکولر پارٹیوں کو ملک کے مسلمان ووٹ دیتے ہیں،ان کو بھی مسلمانوں کی تکالیف پر زیادہ فکر نہیں ہے۔ سیکولر پارٹیاں خود سو بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اندرونی جمہوریت کے ساتھ وہ ایک مخصوص خاندان کی جاگیر بن گئی ہیں۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ سیکولر پارٹیاں درباری لیڈروں کو ترقی دے کر قانون ساز ایوانوں میں بھیجتی ہیں، جبکہ محنتی اور ایماندار لیڈروں کو پارٹی کے اندر درکنار کیا جاتا ہے۔ سیکولر پارٹیاں اس قدر ’’سیکولر‘‘ ہیں کہ وہ اپنی ہی پارٹی کے مسلم چہروں کو انتخابی مہم سے دور رکھتی ہیں، جبکہ ان کے ٹاپ لیڈر اپنی تقریر میں کسی مسلمان کا نام تک نہیں لیتے۔ مگر دوسری طرف ہر جلسہ سے وہ یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ جب ان کی سرکار بنے گی تو عظیم الشان مندر بنے گا ۔ کیا سرکار کا کام پبلک کے پیسہ کو عوامی کاموں کے بجائے کسی دھرم کے لیے مذہبی مقامات بنانا ہے؟ بے حد افسوس کی بات ہے کہ یہ بھارت جیسے سیکولر جمہوریت کی اصل حقیقت ہے۔ اس مشکل کی گھڑی میں ہندوستانی مسلم کمیونٹی پریشان ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ ان حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اپنی آزمائش سمجھیں اور پہلے سے بھی زیادہ صبر و تحمل سے کام لیں۔ نہ صرف اپنے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں ، بلکہ سیکولر جماعتوں سے بھی اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کریں۔ اپنے احتجاج اور اپنی ریلیوں میں ان کو اپنے سیکولر بھائیوں اور بہنوں کےساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ مگر کامیابی تبھی حاصل ہوگی جب مسلم لیڈران اپنی کمیونٹی کے اندر اتحاد کو پیدا کرنے کے لیے کام کریں ۔ اس کےلیے کئی محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، مگر جو کام اکثر نہیں کیا جا تا وہ یہ ہے کہ مسلم تنظیمیں پسماندہ ، دبے کچلے طبقات کو زیادہ سے زیادہ نہیں جوڑ پاتی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ان کو واجب اور موثر نمائندگی سے اکثر محروم رکھا جاتا ہے۔
مسلمانوں کو اپنی حکمت عملی پر بھی از سر نو غور کرنا ہوگا اور آج کے حالات کا ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کرنا ہوگا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آج بھگوا طاقتوں کی یہ پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے سے مشتعل کیا جائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان اپنے صبر و تحمل کو توڑدیں اور پھر ان کومسلمانوں کو دبانے کا ایک آسان سا موقع مل جائے۔مگر مسلمانوں کو ان کے دام فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کا آئین یہاں کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے۔ ہمارے پاس پُر امن طریقے سے اپنے احتجاج کو درج کرنے کا آئینی حق حاصل ہے۔ جب یہ بالکل واضح ہے کہ ہندوتو طاقتیں فساد شروع کرنے کے لیے کسی نتنازع مسئلے کی تلاش میں ہیں، تو کیا ان کی گالی گلوج کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہے؟ مسلمانوں کو حضرت محمد صاحب ؐ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔آپؐ نے اس وقت ہجرت کی جب مکہ میں زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تھا۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ حالات کو پڑھنا چاہیے اور صبر اور ٹھنڈے دماغ سے کام لینا عقلمندی ہے۔ حالات سازگار نہہونے پر ایک قد م پیچھے ہٹ جانا کوئی بزدلی نہیں ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو بابا صاحب امبیڈکر اور ان کی دلت تحریکوں سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ زیادہ تر مواقع پر امبیڈکر نے آئینی اور قانونی لڑائیوں کی پیروی کی۔ وہ جذباتی مسائل پر مبنی سیاست کے پیروکار نہیں تھے۔ انہوں نے سیاست میں شخصیت پرستی کے خطرات سےبھی متنبہ کیا ۔مگر بعض مسلم قائدین جذباتی تقریریں کرتے ہیں، مذہبی علامتوں کا ذکر کرتے ہیں اور کمیونٹی کو واحد مذہبی شناخت میں محدود کر نے کی غلطی کرتےہیں۔ اکثریتی جماعت کی سیاست کرنے والا لیڈر مذہبی محاورے کا استعمال کر تا ہے کیونکہ اسے اکثریتی طبقے کا ووٹ حاصل کرنا اور اور الیکشن جیتنا ہوتا ہے۔ مذہبی علامت کا استعمال کوئی بھی کرے یہ اصولی طور پر پوری طرح سے غلط ہے اور اس طرح کی سیاست سے ملک کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ مذہبی علامات کی سیاست اقلیتی برادری کے رہنماؤں کو ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے۔ وہ اس کا استعمال اپنی پارٹی کو اقتدار میں بھی نہیں لا سکتے ۔ اس لیے ان کو ہمیشہ سیکولر محاوروٴں کا استعمال کرنا چاہیے ۔ مسلمانوں کویہ سیکھنا چاہیے کہ پُرامن احتجاج کو کیسے منظم کیا جائے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی ریلی اور مظاہرے پُرامن نہیں ہوتے ۔ یہاں صرف اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ چونکہ پولیس اور انتظامیہ میں بڑی تعداد میں افسران فرقہ وارانہ ذہن کےہیں اور ان کے اوپر ایک فرقہ پرست سرکار اقتدار میں ہے تو ان حالات میں مسلمانوں کو اور بھی زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کی چھوٹی سی بات کو طول دینے کے لیے لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی معمولی سی خطا سے ان پر لاٹھی اور گولی برسنے لگتی ہے۔ان باتوں کی طرف جے این یو کی پروفیسر غزالہ جمیل نے بھی اشارہ کیا ہے۔ راقم الحروف کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے پروفیسر غزالہ جمیل نے کہا کہ جس طرح سے ریاست مسلمانوں کو کچل رہی ہے، اس حالت میں بھی مسلمانوں نے زبردست وقار کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ بہت سارے لوگ، جن میں کچھ نامور مسلم شخصیتیں بھی شامل ہیں، مسلمانوں کو امن کا درس دیتے ہیں، مگر وہ ریاست کی جابرانہ کارروائی کو نظر انداز کر رہے ہیں وہ اس بات کو بھی فراموش کر رہے ہیں کہ ریاست اکثریت کی سیاست کر رہی ہے۔ مسلمانوں کےمظاہرے کے بعد جب اگنی ویر کو لےکر ملک بھر میں احتجاج ہوا اور بعض مقامات پر مظاہرین نے توڑ پھوڑ اور آگ زنی بھی کی، مگر ان کے خلاف پولیس کا رُخ مسلمانوں کے مقابلہ میں جارحانہ نہیں دیکھا گیا۔ یہ فرق مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پولیس، انتظامیہ اور حکومت کے مسلم مخالف رویے کو دیکھتے ہوئے، مسلم رہنما وٴں کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی احتجاج کی مناسب تاریخ طےہونے سے پہلے مشورہ لیا جائے اور اس کی پوری منصوبہ بندی کی جائے۔ نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے رضاکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے ، جس کی یہ ذمہ داری طے ہو کہ وہ احتجاج کے دوران یہ طے کریں کہ عوام کو کسی بھی حالت میں مشتعلنہ ہونے دیں۔ رضاکاروں پر اس بات کی بھی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ کوئی سماج مخالف عناصر ان کی ریلی میں شامل ہو کر ریلی کو خراب نہ کریں اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ایسا کئی بار دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی پرُ امن طریقے سے چلنے والے احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے ان کے درمیان کچھ ایسے شرپسند آ جاتے ہیں جن کا مقصد فساد برپا کرنا ہوتا ہے۔ رضاکاروں کو انسانی زنجیر بنا کر احتجاج کے دوران نظم و ضبط برقرار رکھنے کی ذمہ داری دی جانی چاہیے۔ مسلم رہنماؤں کو انتظامیہ سے پہلے اجازت لینا کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ وہ مظاہرے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ تاہم سب سے مشکل کام مسلم تنظیموں میں باہمی تال میل برقرار رکھنا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ مسلم قیادت ایک منقسم گھر ہے۔
اس لیے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک وسیع اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہندوتوا نظام سے پریشان صرف مسلمان ہی نہیں ہیں۔ دیگر مذہبی برادریاں، دلت، نچلی ذاتیں اور خواتین بھی بھگوا سیاست کا شکار ہیں۔ ۷۰ فیصد دلتوں کے پاس یا تو کوئی زمین نہیں ہے یا ان کے پاس اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کو اب بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ دلتوں کا کوئی ثقافتی سرمایہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے گریز کرتا ہے۔ معمول کی شادیاں ذات کے اندر ہی کی جاتی ہیں۔ ترقی کے ہر سماجی اشاریہ پر، آدیواسی، دلتوں کی طرح سب سے نیچے بیٹھے ہیں۔ آزادی کے بعد، بے گھر، زخمی اور مارے جانے والے آدیواسیوں کی تعداد فرقہ وارانہ فسادات میں مارے جانے والوں سے کم نہیں۔ پسماندہ طبقات کو اچھوت نہیں سمجھا جاتا ان میں سے ایک اوپری طبقہ امیر نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تعلیمی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔ آج کوئی بھی اقلیتی طبقہ خود اپنی طاقت سے حکومت نہیں بنا سکتا ۔ اس لیے تمام مظلوم طبقات کے مابین اتحاد کی ضرورت ہے۔ مگر اس اتحاد کی کون قیادت کرے گا؟ یہ ایک مشکل سوال ہے لیکن اس کا ایک حل بھی ہے۔ اقتدار میں میں حصہ ان ذاتوں اور طبقات کو ملنا چاہیے جو سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔
اسلام کہتا ہے کہ عرب پر غیر عربوں کی برتری نہیں اور سیاہ فام سے برتر سفید فام نہیں ہے، اگر برتر کوئی ہے تووہ صرف تقویٰ اور نیکی کے بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظریہ مساوات پر یقین رکھتا ہے نسل پرستی پر نہیں۔ لیکن مسلم معاشرے کی حقیقت یہ ہے کہ بعض مسلمان بعض موقعوں پر اپنے آپ کو دوسرے بعض مسلمان سے برتر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات کے اندر شادی کو ترجیح دیتےہیں۔ مسلم خواتین کے حالات اور بھی خراب ہیں۔ اقلیتی اداروں میں ان کی نمائندگی ندارد ہے۔ انہیں ہر طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے علاوہ ، مسلم کمیونٹی کو آج سے ہی مثبت ایجنڈوں پر توجہ دینا چاہیے۔ پہلا قدم ہر فرد کو لینا پڑےگا۔ صحت اور تعلیم پر کام کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ کمیونٹی کو خواتین کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ ملک میں سب سے زیادہ ناخواندہ گروپ ہے۔ مدارس میں قرآن، عربی، فارسی اور دیگر روایتی مضامین کی تعلیم جاری رکھنی چاہیے لیکن جدید مضامین کو بھی شامل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ انہیں اپنے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فنڈز بھی اکٹھے کرنے چاہئیں ۔ انہیں اس کے لیے حکومت سے گرانٹ حاصل کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ مدارس کو بھی اپنے درازہ سب کے لیے کھول دینے چاہئیں۔ اگر کوئی مدرسہ یہ کہتا ہے کہ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے سے کسی کو روکا نہیں ہےتو پھر یہ کیسے ہو گیا کہ ایک مکتب فکر کے لوگ ایک ہی مدرسہ تک محدود ہیں؟ میری رائے ہے کہ غیر مسلمان جو اسلامی تعلیمات اور عربی زبان کو سیکھنے کے خواہشمند ہیں، ان کو بھی مدارس میں داخل ہو نے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر اس کی اجازت ہے ، تو اس بات پر غورہونا چاہیے کہ جس طرح سے عیسائی مشنری کے تعلیمی اداروں میں سارے مذاہب کے لوگ پڑ ھنے کے لیے جاتے ہیں تو پھر وہ مدرسہ میں بڑی تعداد میں کیوں نہیں آتے؟ علم کے حصول پر کسی بھی قسم کی پابندی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بات اسلام کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ فرقے ، مذہب یا پھر یا جنس کی بنیاد پر ، تعلیم کے مساوی حقوق کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
ہندوستان مسلمانوں کا جتنا ہے ، اُتنا ہی کسی اور مذہبی طبقے کا ہے۔مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے آزاد میڈیا ہاؤسز، ریسرچ ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، قانونی سیل وغیرہ بھی کھولنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی مسلمانوں کو کسی سیاسی احتجاج کے بارے میں کو ئی پروگرام بنانا ہو تو ان میں ان کو پسماندہ برادریوں اور سیکولر اور ترقی پسند قوتوں کا خیرمقدم کرنا چاہیے جو مساوات کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ طویل مدتی اہداف کے طور پر وہ انتخابی اصلاحات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں ۔ فرسٹ پاسٹ دی پول سسٹم میں اقلیتی گروپ جیسے مسلمان یا دلت اپنے ووٹوں کے تناسب سے سیٹیں نہیں جیت پاتے ہیں۔ انتخابی نظام کی اصلاح پر سنجیدہ بحث شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پسماندہ طبقات کو موثر نمائندگی مل سکے۔
ایک مصنف کے طور پر میری اپنی رائے ہے، جو میرے مشاہدہ ، تجربہ اور مطالعہ پر مبنی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میری ہر بات سے سب کو اتفاق نہیں ہوگا۔ میری باتوں کے کسی ایک جز پر بحث کرنے کے بجائے، اس پورے مضمون کو ایک جذبہ کے طور پر لیا جائے تو میرا مقصد پورا ہو جائےگا۔ میں جانتا ہوں کہ ایک مضمون میں سارے مسائل پر گفتگو کرنا ممکن نہیں ہے۔ میرا خواب مسلمانوں سمیت تمام پسماندہ کمیونٹیز کو جمہوریت میں برابر کا شریک بنتے دیکھنا ہے۔ یہ ا س لیے کہ کسی خاص شخص یا طبقے کی بالادستی قائم ہونا ہندوستانی جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔ میں عدلیہ اور فوج میں بھی اقلیت اور پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کا حامی ہوں ، جہاں ان کی نمائندگی کم ہے۔ ذات پات کے معاشرے میں فیصلہ سازی کے عہدے پر بیٹھا ہوا شخص اپنے اور اپنی ذات کے مفاد کو سب سے اوپر سمجھتا ہے اور اس کے نزدیک معاشرہ اور ملک کی فلاح زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس لیے ہمیں سب کے لیے برابری اور انصاف کے لیے لڑائی لڑنی ہوگی۔ اگر سماج میں مساوات، آزادی اور اخوت کی جڑیں مضبوط ہوں گی تو اس سے ہمارا ملک اور طاقتور ہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)