تحریر:ابھے کمار
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ مسلمانوں کی ترقی کو لے کر اس طرح سنجیدہ نہیں ہے جیسا کہ ان کو ہونا چاہیے۔ بھارت کا آئین تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ سسٹم میں بیٹھے ہوئےبڑی تعداد میں افسران و لیڈر مذہب، ذات اور جنس دیکھ کر فیصلہ لیتے ہیں۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور سب کے ووٹ کی قیمت ایک ہی ہے، مگر یہ کڑوی سچائی ہےکہ چند مٹھی بھر لوگ ملک کے وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، جبکہ اکثر آبادی کو فیصلہ سازی کے دائرے سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایک اچھا دستور ہونے کے باوجود، ہمارے حکمرانوں کی بد نیتی کی وجہ سے کمزور وٴں کو انصاف نہیں مل پا رہا ہے۔ آج عوام کے اندر غم و غصہ بڑھا جا رہا ہے۔کمزور طبقات کو یہ بات ستانے لگی ہے کہ ان کے دھرم اور ذات کو دیکھ کر ان کےخلاف زیادتی کی جا رہی ہے۔ جنہوں ننے نفرت انگیز بیانات دے کر پورے ملک میں آگ لگائی، ان کو تمام تحفظات فراہم کیے جا رہے ہیں اور انہیں ہندو سماج کا بڑی پیشوا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔مگر جن لوگوں نے انصاف کے لیے لڑائی لڑی اور فسادات کی زد میں آنے والوں کے لیے راحت اور باز آبادکاری کے لیے جدوجہد کی ان کو انصاف دینے کے بجائے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ جو دن رات فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے والی خبروٴں کو چلا رہے ہیں ، ان کو ہر طرح سے اشتہار اور دیگر مالی امداد دے کر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ مگر جنہوں نے حقیقت پر مبنی صحافت کو آگے بڑھایا اور حکومت کی نظروں میں آنکھ ملا کر بات کی، ان کو سلاخون کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔اس پورے ماحول کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ ہندو قومیت کی بات کرنے والے قانون سے بالاتر ہیں ، جبکہ محکوم طبقات کی بات کرنے والوں کے خلاف ریاست انتقام کے جذبے سے کام کر رہی ہے۔مگر اس مشکل کی گھڑی میں صبر اور تحمل کا دامن چھوڑ دینا بھی عقلمندی نہیں ہے؟
مسلمانوں کو اپنی حکمت عملی پر بھی از سر نو غور کرنا ہوگا اور آج کے حالات کا ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کرنا ہوگا۔ بھگوا طاقتوں کی یہ پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے سے مشتعل کیا جائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان اپنے صبر و تحمل کے بندھن کو توڑدیں اور پھر ان کومسلمانوں کو دبانے کا ایک آسان سا موقع مل جائے۔مگر مسلمانوں کو ان کے دام فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ مسلمانوں کو حضرت محمد صاحب ؐ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔آپؐ نے اس وقت ہجرت کی جب مکہ میں زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تھا۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ حالات کو پڑھنا چاہیے اور صبر اور ٹھنڈے دماغ سے کام لینا عقلمندی ہے۔ حالات سازگار نہ ہونے پر ایک قد م پیچھے ہٹ جانا کوئی بزدلی نہیں ہے۔مسلمانوں کو بابا صاحب امبیڈکر اور ان کی دلت تحریکوں سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ زیادہ تر مواقع پر امبیڈکر نے آئینی اور قانونی لڑائیوں کی پیروی کی۔ وہ جذباتی مسائل پر مبنی سیاست کے پیروکار نہیں تھے۔ انہوں نے سیاست میں شخصیت پرستی کے خطرات سےبھی متنبہ کیا ۔مگر بعض مسلم قائدین جذباتی تقریریں کرتے ہیں، مذہبی علامتوں کا ذکر کرتے ہیں اور کمیونٹی کو واحد مذہبی شناخت میں محدود کر نے کی غلطی کرتےہیں۔ مذہبی علامات کی سیاست اقلیتی برادری کے رہنماؤں کو ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے۔ وہ ایسا کر اپنی پارٹی کو اقتدار میں بھی نہیں لا سکتے ۔ اس لیے ان کو ہمیشہ سیکولر محاوروٴں کا استعمال کرنا چاہیے ۔
ہندوستانی مسلمانوں کو ایک وسیع اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہندوتوا نظام سے پریشان صرف مسلمان ہی نہیں ہیں۔ دیگر مذہبی برادریاں، دلت، نچلی ذاتیں اور خواتین بھی بھگوا سیاست کا شکار ہیں۔ ۷۰ فیصد دلتوں کے پاس یا تو کوئی زمین نہیں ہے یا ان کے پاس اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کو اب بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ دلتوں کا کوئی ثقافتی سرمایہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے گریز کرتا ہے۔ معمول کی شادیاں ذات کے اندر ہی کی جاتی ہیں۔ ترقی کے ہر سماجی اشاریہ پر، آدیواسی، دلتوں کی طرح سب سے نیچے بیٹھے ہیں۔ آزادی کے بعد، بے گھر، زخمی اور مارے جانے والے آدیواسیوں کی تعداد فرقہ وارانہ فسادات میں مارے جانے والوں سے کم نہیں۔ پسماندہ طبقات کو اچھوت نہیں سمجھا جاتا اور ان میں سے ایک اوپری طبقہ مضبوط نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تعلیمی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔ آج کوئی بھی اقلیتی طبقہ خود اپنی طاقت سے حکومت نہیں بنا سکتا ۔ اس لیے تمام مظلوم طبقات کے مابین اتحاد کی ضرورت ہے۔ مگر اس اتحاد کی کون قیادت کرے گا؟ یہ ایک مشکل سوال ہے لیکن اس کا ایک حل بھی ہے۔ اقتدار میں میں حصہ ان ذاتوں اور طبقات کو ملنا چاہیے جو سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔
مسلمانوں کو اپنے سماج کے اندر اصلاح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔اسلام کہتا ہے کہ عرب پر غیر عربوں کی برتری نہیں اور سیاہ فام سے برتر سفید فام نہیں ہے، اگر برتر کوئی ہے تووہ صرف تقویٰ اور نیکی کے بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظریہ مساوات پر یقین رکھتا ہے نسل پرستی پر نہیں۔ لیکن مسلم معاشرے کی حقیقت یہ ہے کہ بعض مسلمان بعض موقعوں پر اپنے آپ کو دوسرے بعض مسلمان سے برتر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات کے اندر شادی کو ترجیح دیتےہیں۔ مسلم خواتین کے حالات اور بھی خراب ہیں۔ اقلیتی اداروں میں ان کی نمائندگی ندارد ہے۔ انہیں ہر طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کو تعلیم یافتہ بنانے اور آگے لانے کے لیے ہر مکمن کوشش ہونی چاہیے۔ خاص کر تعلیم اور کاروبارکے حلقہ میں مسلمان دیگر جماعتوں سے کافی پیچھے ہے۔ جنوبی بھارت کے مسلمان تو کچھ کرتے دکھ بھی رہے ہیں، مگر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت کافی خراب ہے۔ یہ بات یا د رہے کہ اگر تعلیم اور کار و بار کےمیدان میں کوئی جماعت پیچھے چلی جائے، تو اس کا کوئی مدد گار نہیں ملتا ۔ یہ بات سج ہے کہ کسی بھی تجارت کو آگے بڑھانے کے لیے ریاست کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ریاست ہی مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ رکھتی ہے تو مشکلیں اور بڑھ جاتی ہے۔ مگر دنیا میں موت کے سوا کوئی بھی ایسی بیماری نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو۔ مسلم ملی رہنماوٴں کو ان چیلنجیز کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا چاہیے اور اس سمت میں سنجیدگی سے مل بیتھ کر سوچنا چاہیے۔ تعلیم اور صحت کے حلقہ میں کیسے کام کرنا چاہیے ، یہ وہ عیسائی سماج سے سیکھ سکتے ہیں۔
مسلم کمیونٹی کو آج سے ہی مثبت ایجنڈوں پر توجہ دینا چاہیے۔ پہلا قدم ہر فرد کو لینا پڑےگا۔ صحت اور تعلیم پر کام کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ کمیونٹی کو خواتین کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ ملک میں سب سے زیادہ ناخواندہ گروپ ہے۔ مدارس میں قرآن، عربی، فارسی اور دیگر روایتی مضامین کی تعلیم جاری رکھنی چاہیے لیکن جدید مضامین کو بھی شامل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ انہیں اپنے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فنڈز بھی اکٹھے کرنے چاہئیں ۔ انہیں اس کے لیے حکومت سے گرانٹ حاصل کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ مدارس کو بھی اپنے درازہ سب کے لیے کھول دینے چاہئیں۔مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے ۔ جب بھی مسلمانوں کو کسی سیاسی احتجاج اور سماجی کے بارے میں کو ئی پروگرام بنانا ہو تو ان میں ان کو پسماندہ برادریوں اور سیکولر اور ترقی پسند قوتوں کا خیرمقدم کرنا چاہیے جو مساوات کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے آزاد میڈیا ہاؤسز، ریسرچ ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، قانونی سیل وغیرہ بھی کھولنے کی ضرورت ہے۔ طویل مدتی اہداف کے طور پر وہ انتخابی اصلاحات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں ۔ فرسٹ پاسٹ دی پول سسٹم میں اقلیتی گروپ جیسے مسلمان یا دلت اپنے ووٹوں کے تناسب سے سیٹیں نہیں جیت پاتے ہیں۔ انتخابی نظام کی اصلاح پر سنجیدہ بحث شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پسماندہ طبقات کو موثر نمائندگی مل سکے۔ یہ سب کچھ ٹھنڈے دماغ سے کرنا ہوگا۔ قوموں کی تقدیر ایک دن میں بنتی تو نہیں ،مگر ایک پل کا جذباتی رد عمل بڑا نقصان کر سکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)