عبدالسلام عاصم
ہم جو تکلیف اٹھاتے ہیں وہ ہمارے لئے ہمیشہ اُس سے زیادہ ہوتی ہے جوہماری وجہ سے دوسروں کو پہنچتی ہے۔ یہ ایک ایسی غیر معلنہ یکطرفہ تفہیم ہے جو ہمیں ایک دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے اور ایک ایسے نتیجے تک نہیں پہنچنے نہیں دیتی جہاں دونوں ایک دوسرے کے زخم پر مرہم رکھ سکیں۔فلسطینی اور اسرائیل دونوں دہائیوں سے اسی کے شکار چلے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سرکاری طور پر منظم ہے تو دوسرا گروہی طرز پر۔
انسانی جان و مال کے تکلیف دہ زیاں کے تازہ موڑ پر بھی دونوں اسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اسرائیل کوبس غزہ سے راکٹ باری سے ہونے والے نقصان کی پرواہ ہے اور حماس اسرائیل کے ہلاکت خیز فضائی حملوں سے پریشان۔ ایسے ہی تازہ حملے میں نو بچوں سمیت متعدد فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں پچاس سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہو ئے ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک تین سو سے زیادی لوگوں کو جانی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی فوج کا استدلال ہے کہ اس نے جوابی کارروائی کی ہے جس میں حماس کے آٹھ شدت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔فلسطینی ہلال احمر کے مطابق اسرائیلی پولس اور فلسطینی مظاہرین کی تازہ جھڑپوں میں سو سے زیادہ لوگوں کو چوٹیں آئی ہیں۔ان میں پچاس سے زیادہ اسپتال لے جائے گئے ہیں۔ عالمی برادری نے حسب دستور دونوں طرف سے کی جانے والی تشدد کی مذمت کی ہے۔یورپی یونین نے فلسطینیوں کے راکٹ حملوں اور مشرقی یروشلم میں وقفے وقفے سے جاری خونریزی کو فوری طور پر بندکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تشدد کی مذمت اور جنگ بندی کی اپیل کرنے والے بھی اپنی طرف سے تمام تر اعتدال کا مظاہرہ کرنے کے باوجود بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے اسرائیلی شہری آبادی پر فلسطینی راکٹ باری کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے جہاں یہ کہا ہے کہ یہ عمل مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو مزید شدت کا سبب بن رہا ہے وہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے متاثرہ خطے کی تشویشناک صورتحال پر اپنے ٹیلی فونی رابظے کو اردن کے شاہ عبداللہ، کویت کے امیر شیخ نواف الاحمد الصباح اور فلسطینی صدر محمود عباس کے علاوہ حماس کے رہنما اسماعیل حنیہ تک محدود رکھاہے۔فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل نے جو اقدامات کئے ہیں ان کے خلاف ترکی کی راجدھانی میں ہزاروں فلسطینی پرچم برداروں نے اسرائیلی قونصل خانے کے سامنے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین میں شامی اور فلسطینی بھی شامل تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بِلنکن نے بھی خطے میں حالات کو مزید مکدر ہونے سے بچاننے کیلئے تشددروکنے کے ہر ممکن اقدامات پر زور دیا ہے۔جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بین بین چلتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ خطے میں جاری تشدد میں مزید عام جانوں کے زیاں کو روکنے کی ذمہ داری اسرائیل اور فلسطین دونوں کے ذمہ داروں پر مشترکہ طور پرعائد ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ متنازعہ علاقے پر فلسطینیوں اور اسرائیل دونوں کا دعوی ہے۔ یہ علاقہ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کی وجہ سے جہاں مسلمانوں کے لئے اہم ہے وہیں دیگر آل ابراہیم کے لئے بھی دینی اعتبار سے اس کی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سب اپنے اپنے طور پر اس کی بازیابی کیلئے سرگرداں ہیں۔ یہ پورا علاقہ یہودی، مسیحی اور اسلامی برادران کے لئے ان کے عقائد کی رو سے انتہائی اہم ہے۔ یہودیوں کا ہیکل سلیمانی بھی بیت المقدس کے پاس ہی ہے جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی قدیمی شہر بیت اللحم میں ہوئی تھی۔
اب تک اس رُخ پر جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ ذو ریاستی حل کے رُخ پر ہی چلی آرہی ہیں۔یہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا وہ ممکنہ فریم ورک ہے جس پردو چار نہیں بلکہ تمام عرب لیگ اور یورپی یونین کے اراکین سمیت روس اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر رہنمایان اتفاق کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں صرف سابق امریکی صدر ڈونیلڈ ٹرمپ نے ایک مر حلے پر ذو مملکتی حل سے بالواسطہ اختلاف کیا تھالیکن ان کا بھی خیال تھا کہ اگر ذوملکتی بنیاد پر مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو کر دیا جانا چاہئے۔
اس فریم ورک کے تحت جس کی اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں تائید کی گئی ہے، 1967 کی تقریباً یکطرفہ اور تباہ کن عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی اسرائیلی حدود کو بنیاد بنا کر مغربی کنارے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم میں ایک آزاد فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لاناہے۔ اس فریم ورک کو اب تک عمل میں کیوں نہیں لایا جا سکا! یہ ہرگز ہرگز کوئی معمہ نہیں ہے۔ اوسلو معاہدے میں اسرائیل فلسطین تنازعہ کو ذو مملکتی حل کے ذریعہ ختم کرنے کے منصوبے کو تکمیل تک لانے کے عزم کا اعادہ تو کیا گیا لیکن بات بننے کے بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔بیس سال سے زیادہ کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن کسی نئی اُڑان سے کوئی ایسی منزل نہیں مل سکی جہاں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں مستقل اور پُر امن قیام کے تصور کو عمل میں لا سکتے۔
نئی نسل کے ذہن میں سوال ابھر سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے! امن کے رُخ پر فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی رہنمایان شمعون پیرییز اور اسحاق رابن کو نوبل امن انعام سے نوازے جانے کے باوجود آل ابراہیم میں کوئی امن معاہدہ کیوں نہیں ہو سکا! اس کا غیر مبہم جواب یہ ہے کہ اسرائیل کی صیہونی قیادت اور فلسطینوں کا شدت پسند حلقہ کسی اختلاف کو صحتمند شکل اختیار کرنے نہیں دیتا۔ حماس اور دیگر قدامت پسندفلسطینی گروہوں نے کبھی بھی ذومملکتی حل کی تائید نہیں کی اور مسلسل اِس موقف پر اڑے ر ہے کہ تمام ان علاقوں پر مشتمل ایک فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے جو اسرائیل کے پاس ہیں۔ دوسر ی طرف اسرائیل مغربی کنارے پر دیوار اٹھانے اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے کو جاری رکھنے کے اپنے عزم سے کبھی باز نہیں آیا۔ نتیجے میں فلسطینی مملکت کے قیام کا امکان آج بھی دور دور تک روشن نہیں۔
موجودہ منظرنامے میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا استدلال یہ ہے 1967 کی سرحدوں کے مطابق مذاکرات پر اب اور عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا استدلال یہ کہ 1967 کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں کا سلسلہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ آج کی تاریخ میں پانچ لاکھ سے زیادہ یہودی مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم کی دو سو کالونیوں میں آباد ہو چکے ہیں،جنہیں وہاں سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ بین اقوامی ضابطوں کے مطابق بہر حال یہ کالونیاں غیر قانونی ہیں۔
ایسا نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین میں اب کہیں کوئی ایسا حلقہ موجود نہیں جو نقص پر امن کو ترجیح نہ دیتا ہو۔بعض حلقے ہمیشہ اس رُخ پر کوشاں رہتے ہیں لیکن ہر اختلاف کو نفرت پر مبنی دکھانے کی دستاویزات کو اتنا ضخیم کر دیا گیا ہے کہ ایک دم سے اس سے نجات ممکن نظر نہیں آتی۔ باوجودیکہ دونوں طرف نئی نسل کے نمائندے اس جامد کیفیت سے اوب رہے ہیں۔ اس کا خطے میں بین سرحدی مظاہرہ بھی شروع ہو گیا ہے لیکن دور تک پھیلے ہوئے کینوس پر جب سارے کردار اصل محورر کی طرف بڑھتے ہیں تو مبنی بر عقیدہ مفادات اور دیرینہ نفرتیں اچھے اچھے ہوم ورک پر بھاری پڑنے لگتی ہیں۔ الااماں الحذراسرائیل اور فلسطینی زندگی ہار کے کیا پائیں گے!