ملاحظات:(مولا نا)عبدالحمید نعمانی
ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر ،تمام تر جمہوری اصول و ہدایات کو پامال کرتے ہوئے اپنی پسند کا بھارت بنانے کا تہیہ کر چکے ہیں لیکن اس سے معماران وطن کے خوابوں کے بھارت کا وجود معرض خطر میں پڑ جائے گا، یہ تمام محبان وطن کے لیے یقینا تشویش کی بات ہے، جن کے آبا۶ واجداد ،تحریک آزادی سے الگ تھلگ رہے تھے ان کے لیے تو اصل جمہوری بھارت کو ختم کر کے اپنی پسند کے” ہندو استھان ” کی تشکیل، اپنے قدیم مقصد کی تکمیل ہو گی، آر ایس ایس کا ہندی ترجمان، پانچ جنیہ پابندی کے ہندستان کو ہندو استھان لکھتا ہے، اس راہ پر ملک کو بڑی حد تک ڈال دیا گیا ہے لیکن اصل بھارت کو سنگھ اور ساورکر کے ہندو استھان میں پوری طرح بدل دینے کا عمل اتنا آسان بھی نہیں ہے، ابھی گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر بھاگوت نے کہا تھا کہ بھارت ایک ہندو راشٹر ہے، جب کہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ہندو اور اس کا تصور و وجود ہی ثبوت طلب ہے، اس سلسلے کی بیشتر باتیں دیگر کا عطیہ معلوم ہوتی ہیں، کئی دانش وروں خصوصا دلت دانش وروں نے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں، جن کے جوابات میں ہندوتو وادیوں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے، ویسے بھی ڈاکٹر بھاگوت اور ان کی پیروی میں دیگر ہندوتو وادی نمائندوں کا بھارت کو ہندو راشٹر قرار دینے والا بیان یقینی طور سے غیر آئینی ہے، اس سمت میں سنجیدہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، جب کہ خلافت کے قیام کے الزام پر فوری کارروائی کی جاتی ہے، بھارت کو ہندو راشٹر قرار دینے کا اعلان، ہندستان کو سیکولر جمہوری نظام کی پٹری سے اتارنے کی کوششوں کا حصہ ہے، گرچہ ڈاکٹر بھاگوت یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بغیر ہندو راشٹر اور اسلام کے بغیر ہندوتو ادھورا ہوگا، تاہم اس کا اصلا عملا کوئی زیادہ معنی و مطلب نہیں ہے، سنگھ کے تقریبا سو سالہ سفر کے کسی پڑاؤ میں بھی نظر نہیں آتا ہے کہ آر ایس ایس کے ہندو استھان میں دیگر مذاہب و اہل مذاہب اور روایات کے حامل لوگوں کے لیے برابری و آزادی کی کوئی گنجائش و جگہ ہے، ہندوتو وادی عناصر، اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی کھلم کھلا دعوت و ترغیب دیتے نظر آتے ہیں، وہ ہندو اکثریتی سماج کو ہتھیاروں کی پوجا کرنے کے ساتھ ان کو رکھنے کے تناظر میں اپنے ہاتھوں میں مختلف قسم کے ہتھیار رکھنے والے دیوی دیوتاؤں کا حوالہ بھی دیتے ہیں، بہار کے ہندو سو ابھیمان یاترا میں گری راج سنگھ ایسا کھلے عام کہتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ پہلے ہی سے ہندوتو وادی سماج میں انسانوں سے زیادہ حیوانات کو اہمیت و توقیر دینے کے سبب ایک عجیب قسم کا عدم توازن و تشدد کا ماحول پیدا ہو گیا ہے، اس نے انسانی معاشرے خصوصا کسانوں کے لیے از حد مشکلات پیدا کر دی ہیں فصلوںکیتباہیسب کےسامنےہے، فرقہ پرستی کے معاملے میں ساورکر کو سر ماتھے پر بٹھایا جاتا ہے لیکن گائے کے متعلق ان کی سوچ کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں راقم سطور نے اپنی کتاب، ساورکر، فکر و تحریک میں قدرے تفصیلی روشنی ڈالی ہے،
آزاد جمہوری نظام میں ہر کوئی آزاد ہے کہ وہ آئین کے دائرے میں اپنے حساب سے زندگی گزارے لیکن دوسروں پر اپنے فکر و عمل کو لادنے کا حق حاصل نہیں ہے، جب کوئی کمیونٹی، چاہے وہ اکثریت میں ہی کیوں نہ ہو ،سماج کے دیگر باشندوں پر زور زبردستی اپنے خصوصی افکار و روایات کو لادنے کی کوشش کرے گی تو ان کو سوال و مزاحمت کا حق ہے، خاص طور سے جب کہ عوامی نمائندے، صرف ہندو بن کر کام کریں اور کہیں کہ بھارت میں ہندو بن کر رہنا ہوگا، وہ اس سے نا بلد ہیں کہ ہندو بننے، رہنے کا کیا طریقہ ہے، وہ بھارت کے بنیادی متون اور دھرم گرنتھوں سے باہر کا لفظ ہے، ہندستان میں ہر آدمی کو ہندستانی اور ہندی بن کر رہنے کا مطالبہ تو ہونا چاہیے کہ یہ ملک سے وابستگی و وفاداری اور شہریت سے جڑا ہے لیکن زور زبردستی ہندو ہونے کا مطالبہ، ایک غیر آئینی اور مذہبی آزادی کو ختم کرنے کی مجرمانہ حرکت ہے، اس کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے، اس طرح کی جارحیت و زبردستی کے خلاف عالمی برادری میں آواز اٹھتی ہے اور رپورٹ سامنے آتی ہے کہ ملک میں اقلیتوں خصوصا مسلم، عیسائی اقلیت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی و پامالی اور جارحانہ جانبداری برتی جاتی ہے تو انصاف و آزادی پر توجہ دے کر شکایات کو دور کرنے کی کوشش کے بجائے لیپا پوتی سے کام لیا جاتا ہے اور رٹا رٹایا بیان دے دیا جاتا ہے کہ ملک میں پوری طرح جمہوریت اور آزادی ہے، سب کا ساتھ، سب کا وکاس پر عمل ہے، اس قسم کا بیان اسی وقت کار گر ہو سکتا ہے جب برابری اور انصاف و آزادی نظر بھی آئے، اس کے برخلاف آج کے تیز رفتار ذرائع ابلاغ کے دور میں، جب کہ دنیا گھر، آنگن بن چکی ہے، یک طرفہ روایتی بیانات کا کوئی زیادہ معنی نہیں ہے، چاہے کوئی بھی مسلم، غیر مسلم اکثریت والا ملک ہو، وہ اپنے ملک کی اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور انصاف و آزادی کی فراہمی کے بغیر صحیح معنی میں جمہوری و سیکولر ملک کہلانے کا لائق نہیں رہ جاتا ہے، جمہوری نظام میں عوامی نمائندے، وزیراعظم، وزیر ،وزراء اعلی، وزراء وغیرہ کے لیے کسی ایک فرقہ کا نمائندہ بن کر خصوصا فرقہ پرست بن کر بات اور کام کرنا ،سراسر آئین کی خلاف ورزی ہے، ہیمنت بسوا سرما، یوگی آدتیہ ناتھ، گری راج سنگھ، پردیپ سنگھ کے گفتار و کردار سے تو ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ وہ سب کے وزیر اعلی اور بلا امتیاز مذہب و فرقہ عوامی نمائندے ہیں، ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف جارحانہ بیانات و تبصرے کر کے خود کو سامنے لانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے، بسا اوقات وزیر اعظم مودی بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دینے کے بجائے ہندوتو کی زبان بولتے اور کام کرتے نظر آتے ہیں، آر ایس ایس کی قیادت بھی کبھی کبھار ایک دو باتیں، ملک کے تنوعات پر کرتی ہے لیکن وہ گھوم پھر کر اپنے پرانے ڈگر، جارحانہ ہندوتو اور ہندو فرقہ پرستی پر آ جاتی ہے، اس کے بغیر اس کے لیے چند قدم بھی چلنا مشکل ہوتا ہے، یہی حال دیگر تمام تر ہندوتو وادی تنظیموں/اداروں کا ہے، اگر ان کی زنبیل سے مسلم دشمنی اور نفرت کو نکال لیا جائے تو وہ بالکل خالی ہاتھ اور یتیم و مفلس ہو کر رہ جائیں گے، اتر کھنڈ اور ہماچل پردیش کو دیو بھومی قرار دے کر وہاں مسلمانوں، مسجدوں ،مزاروں وغیرہ کے خلاف جس جارحیت کے ساتھ فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ ہندو فرقہ پرستی اور منفی نفرت انگیز ذہنیت کا کھلا ثبوت ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ ہندوتو وادی سماج، دیگر کی آزادی و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے، وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کے متنوع افکار و روایات سے قطعی نا بلد و ناواقف ہے، اس کا طاقت ور ہونا، مہذب سماج کے لیے لعنت و آفت ہے، مسلم اقلیت کے بائیکاٹ کرنے اور اس کے کاروبار کے خلاف فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مسلسل جاری رہنے کا معنی، اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ ہندوتو وادی سماج، خطرناک قسم کے روگ میں مبتلا ہے، اگر اس کا بر وقت صحیح علاج نہیں کیا گیا تو وہ پورے سماج اور ملک کے جسم کو بیمار و برباد کر دے گا، اس سلسلے میں بر سر اقتدار پارٹی کی سرکار کا کردار و رویہ انتہائی شرمناک ہے، حالاں کہ آر ایس ایس کی طرف سے بار بار کہا جاتا ہے کہ اسے طریق عبادات اور عبادت گاہوں کے الگ الگ ہونے سے کوئی دقت نہیں ہے، اس کے باوجود وہ مسجدوں، مزاروں اور مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں اور بائیکاٹ اور خطے سے نکال باہر کرنے کی دھمکیوں کی نہ تو مذمت کرتا ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنائے رکھنے کی کوئی سنجیدہ موثر کوشش کرتا نظر آتا ہے، وہ آج بھی اپنے پرانے نازی ازم کی راہ پر گامزن ہے، اس راہ میں تمام مبینہ سیکولر پارٹیوں کی طرف سے سیکولرازم اور جمہوریت کی مضبوط دیواریں کھڑی کرنے کی سنجیدہ جدوجہد ہونا چاہیے، یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ کیرالہ کی بر سر اقتدار سرکار کے وزیر اعلی پینا رائے وجین ، ملک کی طاقت ور سنگھ، بی جے پی وغیرہ پر صحیح طور سے توجہ دینے کے بجائے جماعت اسلامی ہند کو مذہبی سامراجی تنظیم ثابت کرنے پر اپنی توجہ و توانائی لگا رہے ہیں، ان کو اس پر توجہ و توانائی صرف کرنا چاہیے کہ کمیونسٹ پارٹیاں، ملک کے سیاسی منظر نامے سے کیوں غائب ہوتی جارہی ہیں، جماعت اسلامی ہند، آر ایس ایس، بی جے پی کی طرح کوئی ملک کی سیاست میں کوئی طاقت ور عنصر نہیں ہے، جماعت اسلامی نے بدلتے حالات سے ہم آہنگ ہو کر، اپنی قرار دادوں اور عملا، ہندستانی سیکولرازم، جمہوری نظام حکومت، طریق انتخابات وغیرہ کو تسلیم کر لیا ہے، ،پتا نہیں جماعت اسلامی نے معاملے کے اس پہلو کو وضاحت سے پیش کرنے کا بر وقت کا کام کیوں نہیں کیا ،حالاں کہ وہ ماضی میں سی پی آئی ایم سے سیاسی اتحاد و حمایت کر چکی ہے، ماضی میں جب پنڈت نہرو نے جماعت اسلامی کو خطرہ قرار دیا تھا تو اس کا اس نے تفصیلی جواب دیا تھا، جماعت اسلامی کی کچھ باتوں سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے تاہم ملک کے موجودہ تشویش ناک حالات میں اشتعال انگیز فرقہ پرستی اور فاشزم کے بڑھتے سیلاب پر بند باندھنا اولین ضرورت اور وقت کا اہم تقاضا ہے، اگر ترجیحات کی بنیاد پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کے ملک پر بڑے دوررس اثرات مرتب ہوں گے، کسی ایک ریاست کی سطح پر نہیں بلکہ پورے ملک کے مجموعی حالات و مفادات کے مد نظر مختلف سطحوں پر جاری فرقہ وارانہ اشتعال انگیزیوں کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ بھارت کو کہاں لے جائیں گی؟