تحریر: کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
تعلیم کی اہمیت ،افادیت اور ضرورت سے کون انکار کرسکتا ہے۔نہ اس بات سے کسی کو انکار ہے کہ تعلیم سماج میں ترقی اور خوشحالی لاتی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی قوم اور سماج کی پسماندگی میں جہالت ایک بڑا سبب ہے ۔جس قوم کو پیچھے کرنا ہو اسے تعلیم سے محروم کردیا جائے ،وہ قوم خود بخود پیچھے ہوجائے گی ۔تعلیم فرد میں شعور پیدا کرتی ہے ،اسی شعور سے کام لے کر انسان زندگی کے دوسرے شعبوں میں ترقی کے منصوبے بناتا ہے۔یوں تو ملکی سطح پر بھی مسلمانوں کی تعلیمی شرح کوئی قابل ذکر نہیں ہے ۔لیکن اتر پردیش کی حالت اس معاملے میں انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔بعض اعدادو شمار میں اترپردیش کے مسلمان بہار سے بھی پیچھے ہیں۔اس کا ذمہ دار کون ہے؟اب جب کہ اسمبلی الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے اور ریاست کے مسلمانوں کو ایک بار پھر حق رائے دہی کے اختیار کا موقع ہے ۔انھیں اس کا جائزہ ضرور لینا چاہئے۔حدیث میںایک مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا،یعنی اسے کوئی ایک بار تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن بار بار نہیں ،پھر اتر پردیش کے مسلمان کیسے مومن ہیں جو گزشتہ ستر سال سے دھوکا کھا رہے ہیں ۔
اتر پردیش ملک کی بڑی ریاست ہے ،یہاں سے 80ممبران پارلیمنٹ ہیں ،یہاںکی آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان ہیں۔اس کے بعد بھی ان کی تعلیمی پسماندگی میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں ،پارٹیاں اور چہرے بدلتے رہتے ہیں،مگر مسلمانوں کے ساتھ کسی کا سلوک نہیں بدلتا۔کیا سرکاروں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے عوام کی تعلیمی ترقی کے لیے منصوبہ بنائیں ،ایسا نہیں کہ ریاست میں تعلیم کے نام پر پیسہ خرچ نہیں ہوتا ،تقریباً 20ہزار کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتا ہے ،البتہ مسلمانوں کے نام پر سرکار کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے ۔مدرسہ موڈرنائزیشن کے نام سرکار نے ہزاروںمدارس کو مدرسہ بورڈ سے ملحق کرکے وہاں اساتذہ کی بھرتی تو کرلی ،لیکن دوسال سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ انھیں تنخواہیں تک نہیں ملیں،جب کہ بجٹ میں 479کروڑ روپے رکھے گئے ہیں،اب کوئی یہ بتائے کہ بھوکے پیٹ اساتذہ کیا تعلیم دے سکیں گے ،سرکاری پرائمری اسکولوں کا نظام پہلے ہی اندھیر نگری چوپٹ راج کا شکار ہے ۔مسلمان انہی دونوں جگہ تعلیم پاتے ہیں ،یا تو وہ سرکاری اسکولوں کا رخ کرتے ہیں ،یا مدارس کا ،دونوں کا حال آپ کے سامنے ہے ،سرکار نے مڈ ڈے میل اور چند روپوں کے وظیفے کے نام پر مسلمانوں کا استحصال کیا ہے۔کیا سرکار ان دونوں اداروں کو درست نہیں کرسکتی ،وہ چاہے تو آن کی آن میں درست کرسکتی ہے لیکن نہیں کرے گی ،اس لیے کہ ان کے درست ہوجانے سے مسلمانوں کا تعلیمی گراف بڑھ جائے گا ۔ مسلمان پڑھ لکھ جائے گا اورشعور حاصل کرلے گا پھر وہ حکومت میں اپنا حصہ طلب کرے گا ۔ایسا بھی نہیں کہ اتر پردیش کی اسمبلی میں مسلمان نمائندے نہ ہوں،یا وہ سرکاروں کا حصہ نہ رہے ہوں ،ماضی میں تعلیم کے شعبے بھی ان کے پاس رہے ،لیکن انھیں بھی قوم سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر رہی ہے یا وہ اپنی حکومتوں کے بندھوا مزدور رہے ہیں۔
2019-20کے ایک سروے کے مطابق اترپردیش میں 40.83فیصد مسلمان ناخواندہ یعنی جاہل ہیںجب کہ باقی لوگ صرف 34فیصد لوگ جاہل ہیں ،تقریباً 29فیصد مسلمان صرف پرائمری تک تعلیم یافتہ ہیں، پرائمری ایجوکیشن کی صورت حال اوردوچار درجے کی تعلیم کا کیا معیار ہوتا ہے اس سے آپ واقف ہیں ، انھیں بھی ناخواندوں میں ہی شمار کرنا چاہیے۔اس طرح 70فیصد مسلمان نا خواندہ ہیں۔صرف 30فیصد مسلمان ہی ہیں جو لکھ پڑھ سکتے ہیں۔مسلمان13.89فیصد آٹھویںپاس ہیں،غیر مسلموں میں یہ شرح 17فیصد ہے۔ 12.22فیصدمسلمان ہائی اسکول یا انٹر میڈئیٹ ہیں ۔3.33فیصدمسلمان گریجویٹ ہیں اور غیر مسلم اس کا دوگنا6.17فیصدگریجویٹ ہیںاور1.11فیصد مسلمانوںنے گریجویشن سے اوپر کی تعلیم حاصل کی ہے اور برادران وطن میں یہ شرح بھی دوگنی یعنی 2.13فیصد ہے ۔ یہ اعداد و شمار ہیں جو اتر پردیش کی خیر امت سے متعلق ہیں ۔اب آپ اسی سے اندازہ لگالیجیے کہ ڈاکٹر ،انجینئر کتنے ہوں گے ،آئی اے ایس اور آئی پی ایس تو پوری ریاست بھر میں ہر سال دو چار ہی ہوتے ہیں۔ایک وہ وقت تھا جب سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی شرح 35فیصد تھی ،ایک آج کا دن ہے کہ یہ شرح 3فیصد سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔یہ وہی اتر پردیش ہے جہاں 77یونیورسٹیاں ہیں ،جہاںکہنے کو ہر شہر میں کالج ہیں ،جہاں مدارس کی ایک لمبی فہرست ہے۔آخر اس پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے؟
اتر پردیش کے مسلمانوں کی بدحالی اور تعلیمی پسماندگی کی اصل ذمہ دار نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہیں،جنھوں نے مسلمانوں کو بندھوا ووٹ سمجھا،ہر بار نئے نئے انداز سے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے ،بدلے میں دوچار مسلمان وزیر بنے ،کبھی رمضان میں افطار کرادیا،کسی مزار پر پھولوں کی چادر بھیج دی،بہت ہوا کسی نے قبرستان کی چہار دیواری کرادی، ایک حکومت نے اردو کو سرکاری سطح پر دوسری زبان کا درجہ دینے کا بل پاس کردیا ،ایک صاحب نے بابری مسجد کے تعلق سے کارسیوکوں پر دوچار گولیاں چلادیں،ایک حکومت نے کسی زمانے اردو ٹیچربھرتی کردیے ،بس ایک ایک کام کرکے پندرہ بیس سال تک ووٹ حاصل کرتے رہے ۔کسی حکومت نے اور ان کے ساتھ شامل مسلم ممبران اسمبلی نے مسلمانوں کی تعلیم کا کوئی منصوبہ کبھی نہیں بنایا۔مسلم علاقوں میں دور دور تک اسکول نہیں ہیں۔اسکول ہیں اساتذہ نہیں ہیں۔کہیں بلڈنگ نہیں ہے ،پورا تعلیمی نظام کرپشن کا شکار ہے ۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے مہنگے ہیں جن میں مسلم بچے نہیں پڑھ سکتے ،ان کے اخراجات کا بار عام مسلمان برداشت نہیں کرسکتے ۔اس کے باوجود بھی ہمارے مسلم قائدین ایک بار پھر اتر پردیش میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔انھیں اسٹیج سے دھکا دے کر بھگایا جارہا ہے ،ان کا نام لینا بھی کسی کو گوارا نہیں،لیکن ہمارے سیاسی رہنما ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں ،کیوں کہ وہ جیت کر اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔قوم کی خدمت کے نام پر قوم کا سودا کررہے ہیں۔کیا 2022کے الیکشن میں کوئی سیاسی پارٹیوں سے یہ پوچھنے کی جرأت کرے گا کہ ان کے پاس مسلمانوں کے لیے کیا ایجنڈا ہے اور انھوں نے ماضی میں جو وعدے کیے تھے وہ کیوں پورے نہیں ہوئے ۔جب قوم کے ایمان فروش لوگ قائد بن جاتے ہیں تو قومیں اسی طرح غلام ہوجاتی ہیں جس طرح آج اتر پردیش کا مسلمان ہے ۔
تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہر شخص کو بیدار ہونا ہوگا۔ملی تعلیمی اداروں کو بھی اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا،عام مسلمانوں کو بھی وظیفہ خوری اور مڈ ڈے میل کے بجائے تعلیم پر بات کرنا ہوگی ، سرپرستوں کو سرکاری نظام تعلیم کے ذمہ داروں سے پوچھنا ہوگا کہ ان کے بچوں کے اسکولوں میں اساتذہ کیوں نہیں ہیں ؟مگر معاف کیجیے بیشتر والدین اپنے بچوں کے وظیفے کی بابت تو اسکول کے ماسٹر سے چار بار ملتے ہیں کبھی ان کی تعلیم کے لیے نہیں ملتے ۔الحاق شدہ مدارس کو اپنے اساتذہ کی تنخواہوں کا خود بھی انتطام کرنا ہوگا ،پوری قوم میں تعلیمی بیداری کی ایک مہم چلانا ہوگی کہ’’ ایک وقت کھائیں اپنے بچوں کو پڑھائیں گے ‘‘۔سیاسی نمائندوں کو اپنی سیاسی پارٹیوں پر دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔مگر یہ سب کچھ عارضی حل ہیں،اس کا پائدار حل حکومت میں اپنی حصے داری کے بعد ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔وہ حصے داری اسی وقت ہوگی جب آپ کی اپنی سیاسی جماعت ہو ،جس کی قیادت آپ خود کررہے ہوں۔آپ کی قیادت والی سیاسی جماعت کے چار نمائندے بھی ایوان میں آپ کی بات رکھ سکتے ہیں ،غیروں کی قیادت کے مسلم نام کے پچاس نمائندے بھی کچھ نہیں کرسکتے ،جیسا کہ ستر سال کا تجربہ آپ کے سامنے ہے ۔الیکشن آپ کے سامنے ہے ۔آپ چاہیں تو اپنی تقدیر کا نیا باب لکھ سکتے ہیں اور اگر پھر آپ نے اپنے ضمیر کا سودا کرلیا تواس سے بھی زیادہ برے دنوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)