مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت اکثر اپنے عجیب و غریب اور نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں،وہ کبھی میٹھی اور کبھی کڑوی دوا کھلانے کا خاص سلیقہ رکھتے ہیں،کبھی اقلیتوں کے حق میں بہ تکلف ایک آدھ اچھے فقرے بھی بھی کہہ جاتے ہیں اور کبھی ایسی خود ساختہ تاریخ بیان کرتے ہیں کہ گویا صرف ہندو ہی اس ملک کے باشندے ہیں،باقی لوگوں کو اس سرزمین سے سے چلا جانا چاہیے،اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ کہ ہندو تو یہیں پیدا ہوئے،کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے؛ البتہ مسلمان اور عیسائی وغیرہ دوسرے ملکوں سے آئے ہیں؛اس لیے وطن عزیز پر ان کا حق کم ہے، اگر وہ اسی ملک میں رہنا چاہتے ہیں تب بھی ان کو دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنا ہوگا ،اسی پس منظر میں ابھی انہوں نے دعوی کیا ہے کہ مسلمان حملہ آور ہیں، حملہ آور کے اس لفظ سے وہ دو باتیں کہنا چاہتے ہیں،ایک: یہ کہ مسلمان اس ملک کے اصل شہری نہیں ہیں ،وہ باہر سے آئے ہیں ،دوسرے: انھوں نے زور زبردستی کے ذریعہ اپنا مذہب پھیلایا ہے ،اور اسی طرح حکومتیں کی ہیں۔
اس دعویٰ کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اول یہ کہ کس کے آباؤ اجداد باہر سے آئے، اور کن کے آباؤ اجداد اسی زمین میں پیدا ہوئے؟ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس کو وطنی یا غیر وطنی اور دیشی اور بدیشی ہونے کا معیار بنایا جائے ،اگر اس کو اصول کے طور پر درست مان لیا جائے تو آج پوری دنیا میں نقل آبادی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا ، پوری دنیا ایک انتشار اور ابتری کے ماحول سے دوچار ہوجائے گی؛ کیوں کہ اگر نقل مکانی کی تاریخ پڑھی جائے تو کوئی علاقہ ایسا نہیں ،جہاں دوسرے علاقہ کےلوگ آکر نہیں بسے ہوں،اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ دنیا آج اس قدر آباد نہ ہوتی اور ویرانے کا منظر پیش کرتی،امریکہ میں ریڈانڈین ایشیاء سے اور سیاہ فام لوگ افریقہ سے پہنچے ، اس کے بعد یوروپ کے سفید فام پہنچے،اور وہ پہلے سے آباد باشندوں کو دور دراز علاقوں میں بھگا کر قابض ہوگئے، کیا اب وہاں اس فلسفہ پر عمل کیا جا سکتا ہے کہ جن کے آباؤ اجداد یہاں پیدا ہوئے ہیں، وہی اس ملک کے شہری سمجھے جائیں گے،اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو خود ہمارے دیش کو کتنا نقصان پہنچے گا ،آج دنیا کے بہت سے ملکوں میں برصغیر کے تارکین وطن موجود ہیں،ان میں وہ لوگ بھی ہیں ،جو مزدور بن کر اس حال میں پہنچے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں ہل جوتنے والے بیلوں کی رسی تھی، اور آج وہ وہاں کے تخت و تاج کے مالک ہیں، اور اقتدار کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ جس علاقہ میں آباد ہوگئے، وہ اس علاقہ کے وطنی ہیں۔
دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں کوئی ایسا بین الاقوامی معاہدہ نہیں تھا، جس میں دنیا کی سبھی حکومتیں بندھی ہوئی ہوں، زیادہ تر قبائلی نظام تھا، جو قبیلہ جس علاقہ پر حاوی ہو گیا، وہ اس علاقہ کو اپنی ملکیت بنا لیتا تھا، چراگاہوں اور کھیتوں پر قبضہ کر لیتا تھا، یا تو دوسرے قبیلہ کو مار بھگاتا تھا یا انہیں اپنا غلام اور خادم بنا لیتا تھا، بڑی حکومتیں ہوں یا چھوٹی، ملک گیری ہی ان کے معاش کا اور اپنے اقتدار کو وسعت دینے کا ذریعہ تھا، ہمارے ملک میں بھی قبائلی سرداروں اور راجاؤں کی یہی صورت حال تھی، اسی اصول کے تحت سلطنتیں بنتی، پھیلتی اور سکڑتی تھیں، اب ان پرانی تاریخوں کو نکالنا اور اس کی بنا پر لوگوں کی شہریت کے فیصلے کرنا ایک بے معنیٰ بات ہوگی، دنیا بھر کے ممالک اسی طرح وجود میں آئے اور آج تک وہاں نسل در نسل لوگ آباد ہیں، نیز پوری دنیا نے ان کو اس ملک کا باشندہ تسلیم کر لیا ہے۔
تیسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کیا ہندو اور خاص کر برہمن حملہ آور نہیں ہیں، اور کیا یہ باہر سے نہیں آئے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی حملہ آور ہیں اور یہ بھی باہر سے آئے ہیں؛ کیوں کہ یہ آرین نسل سے ہیں، جیسے مغل اور پٹھان وسط ایشیاء سے تعلق رکھتے تھے، اسی طرح آریہ بھی وسط ایشیاء کے خانہ بدوش تھے اور اچھی چراگاہ کی تلاش میں یہاں وہاں گھومتے رہتے تھے، وہ دو ہزار سے پندروہ سو قبل مسیح کے درمیان ہندوستان میں داخل ہوئے اور برصغیر کے پورے مغربی اور وسطی علاقہ پر دور دور تک قابض ہو گئے، اور یہاں کے اصل باشندے دراوردیوں کو اس طرح مار بھگایا کہ وہ ہٹتے ہٹتے مشرقی اور جنوبی علاقہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، اس بات کو ہندوستان کے تمام معتبر اور قدیم مؤرخین نے لکھا ہے، لالہ لاجپت رائے جو ایک قوم پرست لیڈر تھے ، نے بھی کہا ہے :
’’ہمیں اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہندو آریہ بھارت کے مول نواسی نہیں ہیں‘‘ (بھارت کا اتہاس، صفحہ: 21-22)
پی ایچ گپتا نے لکھا ہے :’’رامائن کوئی مذہبی کتاب نہیں؛ بلکہ بدیسی آریوں کے ذریعہ بھارتیہ مول نواسیوں کے درمیان جنگ پر آدھارت (مبنی) کتاب ہے۔‘‘ (رامائن میں میری کھوج، صفحہ:1)
نمودری پال کا کہنا ہے :’’ہندوواد کی پیدائش بھارت میں نہیں ہوئی؛ بلکہ دوسرے مذاہب کی طرح یہ بھی باہر سے آیا؛ لیکن بھارت کی دھرتی پر پلا بڑھا، پھولا پھلا اور اب یہ ہندوستانی سرزمین کا ہی حصہ ہے۔‘‘ (دیش کا اتہاس: 2؍521)
خوشونت سنگھ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوواد آریوں کے ذریعہ، اور اسلام مسلمانوں کے ذریعہ ہندوستان میں داخل ہوا، (ٹائمس آف انڈیا، نئی دہلی، ۱۷؍ اکتوبر 1987) خود آر ایس ایس کے بانی گرو گوالکر 1920ء تک اس بات کو تسلیم کرتے رہے کہ آریہ ہندوستان میں باہر سے آئے ہیں۔ (ہندوتوا، صفحہ: 107،14)
بعد کو چل کر گرو گوالکر نے کہنا شروع کر دیا کہ آریہ باہر سے نہیں آئے تھے اور اس کے لئے نہایت مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ گویا وسط ایشیاء کے لوگ یہاں منتقل نہیں ہوئے؛ بلکہ خود وہ علاقہ ہندوستان سے کھسک کر دور چلا گیا، اور اس وقت سنگھ پریوار کے لوگ بڑی قوت کے ساتھ اس بات کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ آرین کہیں باہر سے نہیں آئے؛ حالاں کہ اب تو وامن میشرام وغیرہ کا دعویٰ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ برہمنوں کا تعلق یہودی نسل سے ہے، اور ہندوستان کے دوسرے لوگوں بشمول مسلمان اور دلت کا ڈی این اے یکساں ہے؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والی موجودہ قوموں میں پہلے ودیشی اور حملہ آور برہمن تھے، اور برہمن ہی اصل ہندو ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جو دوسری قومیں آئیں، انھوں نے مقامی باشندوں کو اپنا دوست بنایا، ان سے رشتہ داریاں قائم کیں، ان کی لڑکیوں سے خود شادی کی، اپنی لڑکیوں کو ان کے نکاح میں دیا اور ان کے ذریعہ ایک ملی جلی نسل وجود میںآئی، جو رنگ وروپ میں، مزاج میں اور طور وطریق میں یکسانیت کی حامل ہے؛ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ میں جو عرب فوجی آئے یا ملک کے دوسرے علاقوں میں غزنی ، غور اور دوسرے علاقوں سے جو قبائل آئے، ان کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی؛ لیکن یہاں جن حکمرانوں سے ان کا مقابلہ ہوا اور اس کے لئے انھوں نے جو فوج بنائی ، ان کی تعداد کہیں زیادہ تھی، بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کی تعداد اس میں دس پندرہ فیصد بھی مشکل سے رہی ہوگی، یہاں تک کہ اکثر سپہ سالار بھی مقامی ہی متعین کیا جاتا تھا؛ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بیرونی حملہ آوروں نے فتح حاصل کی؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ رعایا اپنے حکمرانوں کے ظلم سے عاجز آچکی تھی، وہ اس قدر احساس کمتری میں مبتلا اور مرعوب تھے کہ علَم بغاوت اٹھانے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے، ان حالات میں باہر سے آنے والے انکے لئے سہارا بنے اور ان کے ساتھ مل کر انھوں نے ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کی، یہ ستم رسیدہ عوام کی اپنے حکمرانوں سے لڑائی تھی نہ کہ بیرونی حملہ آوروں کی ملکی لوگوں سے؛ مگر آریوں کامعاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، آریوں نے مقامی باشندوں کے درمیان اور اپنے درمیان نسلی تفریق و امتیاز کی ایک دبیز دیوار کھڑی کر دی، اور ویسا ہی نسلی امتیاز قائم کیا جو قدیم دور میں یہودیوں نے اختیار کیا تھا اور جو بعد کے دور میں سفید فاموں نے امریکہ میں آباد ریڈ انڈین اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ اختیار کیا تھا، یہ امتیاز اس درجہ کا تھا جنہیں سن کر بھی انسانیت سرمشار ہو جاتی ہے، وہ صرف حملہ آور ہی نہیں تھے؛ بلکہ ایک سنگدل آقا اور مالک کا روپ رکھتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندو مذہب طبقاتی تقسیم کی جیسی واضح تصویر پیش کرتا ہے، شاید ہی کسی اور مذہب میں ایسی طبقہ واریت پائی جاتی ہو، اگر انسانوں کے درمیان نسلی بنیاد پر تفریق کوئی قابل تعریف بات ہوتی تو یقیناََ ہندو ازم سے بڑھ کر کوئی مذہب قابل تعریف نہ ہوتا، ہندو مذہب کے مطابق انسان پیدائشی طور پرچار گروہوں میں منقسم ہے: برہمن، چھتری، ویش اور شودر، برہما سے مراد خدا کی ذات ہے؛ اسی لئے برہمن کا لفظ ہی اس طبقہ کی خدا سے قربت کو بتلاتا ہے، برہمن بنیادی طور پر مذہبی نمائندہ ہوتا ہے ، وید کی تعلیم حاصل کرنا اور نذرونیاز لینا صرف برہمن کا حق ہے، برہمن پیدائشی طور پر مخلوق میں اعلیٰ درجہ کا حامل ہے، جو کچھ اس دنیا میں ہے، اصل میں برہمن کا ہے، جن جرائم پر دوسرے لوگ سزائے موت کے مستحق ہیں، برہمن کا اس جرم میں صرف سر مونڈا جا سکتا ہے، دس سال کا براہمن سو سال کے چھتری کے لئے بھی باپ کا درجہ رکھتا ہے، وہ ہر طبقہ کی عورت سے شادی کر سکتا ہے، کسی دوسرے طبقہ کا آدمی برہمن عورت سے نکاح نہیں کر سکتا؛ تاہم اگر برہمن کسی شودر عورت سے نکاح کرتا ہے تو گویا اپنے آپ کو نرک (دوزخ) کا مستحق بناتا ہے، برہمن خواہ کتنا بھی برا عمل کرے وہ تعظیم واحترام کا مستحق ہے، چھتری کا کام دان دینا، چڑھاوے چڑھانا اور حفاظت وصیانت کا کام انجام دینا ہے، ویش تجارت وزراعت اور مویشیوں کی پرورش کا کام کریں گے اور دان دیں گے، یہ سب گویا برہمن کی خدمت کے لئے ہیں؛ لیکن ان میں سب سے بدقسمت طبقہ ’شودروں‘‘ کا ہے، یہ وید کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، برہمن کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے، ان کا سب سے اہم کام پورے اخلاص سے برہمنوں کی خدمت کرنا ہے، برہمن، شودر کا مال بہ جبر لے سکتا ہے، اگر وہ اپنے سے اونچی ذات پر لکڑی اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے اور غصہ میں لات مارے تو پیر کاٹ ڈالا جائے، اگر کسی شودر نے برہمن کو گالی دی تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے اور اگر کوئی شودر مدعی ہو کہ وہ برہمن کو تعلیم دے سکتا ہے تو اس کو کھولتا ہوا تیل پلایا جائے، یہاں تک کہ کتے، بلی ، میڈک، چھپکلی، کوے، اُلو کے اور شودر کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام اس ملک میں محمد بن قاسم ، یا غزنوی یا غوری یا مغلوں کے ساتھ نہیں آیا، اسلام تو اس ملک میں اس سے بہت پہلے خلیفہ ٔ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں آچکا تھا، ہندوستان کا جنوبی ساحلی علاقہ جو مالا بار کہلاتا ہے، وہاں سری لنکا سے گزرتے ہوئے عرب تجار پہنچے، انھوں نے اپنی خوش اخلاقی، دیانتداری، راست گوئی، عہد کی پختگی، مقامی باشندوں کے ساتھ حُسن سلوک اور ہمدردی وغمخواری کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتے، وہ حملہ آور نہیں تھے، وہ محبت کے سوداگر تھے، انھوں نے فولاد کی تلوار سے نہیں؛ بلکہ اخلاق کی تلوار سے لوگوں کے دل ودماغ کو فتح کیا، اور جو لوگ برہمنوں کے ظلم وستم سے عاجز تھے، انھوں نے ان کو اپنے لئے اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر ان کا استقبال کیا، بڑی تعداد میں لوگ اپنی رضاء ورغبت سے مسلمان ہوئے، یہاں تک کہ عوام کے ساتھ ساتھ بعض حکمرانوں نے بھی اسلام قبول کیا، یہ صرف زبانی دعویٰ نہیں ہے؛ بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اور تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ مسلمان اسی ملک میں پیدا ہوئے، ان کے آباو واجداد نے ملک کی بہترین خدمت کی، وہ مختلف علوم وفنون کو اپنے ساتھ لائے اور اس ملک کو اتنا دولت مند بنایا کہ لوگ اسے ’’ سونے کی چڑیا‘‘ کہنے لگے، اس کی GDP پوری دنیا سے آگے بڑھ گئی، دنیا کی بڑی طاقتوں میں اس کا شمار ہونے لگا اور انھوں نے ایک ایسے وسیع بھارت کو وجود بخشا، جو موجودہ افغانستان سے شروع ہو کر برما کی آخری سرحدوں تک پہنچتا تھا، ان کی شکل وصورت، مزاج ومذاق، طرز زندگی اور تہذیب وتمدن صاف طور پر بتاتا ہے کہ وہ اس ملک کے اصل باشندوں میں شامل ہیں، ان کو حملہ آور کہنا غلط ہے، حملہ آور تو آریہ ہیں، جنھوں نے اس ملک کے قدیم باشندوں کو ذلیل ورسوا کیا اور غلام بنایا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)