تحریر:گیتا پانڈے
وہ مغل بادشاہ جس کی وفات کو 300 برس سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، گذشتہ چند ماہ سے بھارت میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اورنگزیب نے جسے ’آخری بااثر مغل بادشاہ‘ بھی سمجھا جاتا ہے، 1658 سے 1707 تک تقریباً 50 برسوں تک انڈیا پر حکمرانی کی مگر تاریخ کی کتابوں میں وہ کبھی بھی زیادہ پسندیدہ شخصیت نہیں رہے۔
انھوں نے اپنے والد کو جیل میں بند کر کے اقتدار سنبھالا اور اپنے بڑے بھائی کو مروا دیا۔ ان کے پردادا اکبر کو سیکولر حکمران قرار دیا گیا اور دادا جہانگیر کی فن تعمیر اور آرٹ سے محبت کی تعریف کی جاتی ہے۔ جبکہ ان کے والد شاہ جہاں نے آگرہ میں اپنی اہلیہ ممتاز محل کے لیے محبت کی لافانی یادگار تاج محل بنوایا۔
مگر چھٹے مغل بادشاہ اور پرہیزگار مسلمان اورنگزیب کو اکثر ظالم اور توسیع پسند حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اورنگزیب نے شریعت کے سخت قوانین نافذ کروائے اور ہندوؤں پر تحفظ کے بدلے جزیہ لاگو کیا۔
اورنگزیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں موسیقی اور فنون لطیفہ سے نفرت تھی اور یہ کہ انھوں نے کئی مندروں کے انہدام کا حکم دیا۔ یہ سب تو کئی صدیوں قبل ہوا مگر حالیہ عرصے میں اورنگزیب سے پہلے سے کہیں زیادہ نفرت ظاہر کی جا رہی ہے۔
نفرت کی اس حالیہ لہر کا آغاز اس وقت ہوا جب وارانسی کے مقدس شہر میں گیانواپی مسجد پر تنازع سامنے آیا۔ اس مسجد کو ہندوؤں کے وشواناتھ مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کیا گیا تھا۔ وشواناتھ مندر 16ویں صدی میں ہندوؤں کا ایک عظیم مندر تھا جسے 1669 میں اورنگزیب کے حکم پر مسمار کر دیا گیا تھا۔
اب ان کا نام سوشل میڈیا پر ہزاروں توہین آمیز حوالوں سے ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ان حوالوں کو انڈیا کی عدالتی کیسز میں تلاش کیا جا سکتا ہے جن کو شروع کرنے والوں میں آج کے قوم پرست ہندو رہنما شامل ہیں۔
وزیراعظم مودی نے گذشتہ ماہ سکھ گرو تیغ بہادر کے 400ویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر بھی مغل بادشاہ اورنگزیب پر تنقید کی تھی گذشتہ برس دسمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے وارانسی میں ایک تقریب میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے ‘مظالم اور اس کی ’دہشت‘کے متعلق بات کی تھی۔وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ ‘انھوں نے معاشرے کو تلوار کے زور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی، انھوں نے انڈیا کے معاشرے کو جنونیت سے کچلنے کی کوشش کی تھی۔
گذشتہ ماہ بھی انھوں نے سکھ گرو تیغ بہادر کے 400ویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر دوبارہ مغل بادشاہ اورنگزیب کا نام لیا تھا۔ سکھ مذہب کے گرو تیغ بہادر کا سر اسلام قبول کرنے سے انکار پر سر قلم کر دیا گیا تھا۔وزیر اعظم مودی نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اگرچہ اورنگزیب نے بہت سے سر قلم کیے لیکن وہ ہمارے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکا۔
وزیر اعظم کے ان الفاظ نے ایک کینڈین امریکی صحافی کو اضطراب میں ڈال دیا جس نے ٹوئٹر پر پوچھا کہ انڈیا کے وزیر اعظم ’تین سو سال قبل مرنے والے مغل بادشاہ پر تنقید پر مبنی لمبی تقریر کیوں کر رہے ہیں؟
اس کے جواب میں تاریخ دان اودرے تریشک نے سلسلہ وار ٹویٹس کرتے ہوئے کہا کہ ہندو قوم پرستوں کا خیال ہے کہ ’مسلمانوں نہ کئی برسوں تک ہندوؤں کو دبا کر رکھا اس لیے ماضی کے بدلے کے طور پر آج وہ ظلم کے مستحق ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ بھارت میں اورنگزیب کا نام استعمال کر کے یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ ’آج کے دور میں مسلمانوں سے نفرت کرنا اور ان کے خلاف تشدد کرنا قابل قبول ہے۔
اس وقت سے اب تک ٹوئٹر پر ہونے والی اس بحث میں اورنگزیب کو ’قصائی‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بہت سی نفرت آمیز ٹویٹز کا انبار لگ چکا ہے۔ یہاں تک کہ آگرہ کے سٹی مئیر کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات سے اس کی تمام نشانیوں کو مٹا دینا چاہیے۔
ٹوئٹر پر مغل بادشاہ کو ایک ایسا ’بیرونی حملہ آور‘ قرار دیا گیا جو ہندوؤں کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ جبکہ ایک صارف نے لکھا کے مغلوں کے دور کی ان تمام عمارتوں اور اہم جگہوں کو جو انھوں نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو مسمار کر کے بنائی تھیں، گرا دینا چاہیے۔
جمعرات کو مغربی ریاست مہاراشٹرا میں موجود ان کے مقبرے کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مقامی سیاستدان نے ’اس کے وجود کی ضرورت‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے مسمار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کی تاریخ کے مصنف اور پروفیسر مورخ ندیم رضوی کا کہنا ہے کہ اورنگزیب ہندوستان کی مسلم اقلیتوں کو جو کہ ہندؤوں کے پرتشدد ہجوم کے نشانے پر ہیں، مکار اور چالاک قرار دینے کے لیے آسانی سے استعمال ہونے والا ایک نام ہے۔
پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب نے متعدد ہندو مندروں کو منہدم کیا اور ہندوؤں پر امتیازی ٹیکس عائد کیا، لیکن وہ ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک تھے، اور مکمل طور پر برے انسان نہیں تھے۔انھوں نے ہندو مندروں کی دیکھ بھال کے لیے سب سے زیادہ گرانٹ دیں، وہ خود خون کے اعتبار سے دو تہائی ہندو تھے کیونکہ ان کے پردادا اکبر نے ایک راجپوت خاندان میں جو ہندوؤں کی ایک جنگجو ذات ہے، شادی کی تھی، اور ان کی دور حکمرانی میں کسی دوسرے مغل بادشاہ کے مقابلے میں زیادہ راجپوت اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔
مقبول تاثر کے برعکس پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ اورنگزیب اپنی ذاتی زندگی میں قدامت پسند نہیں تھے اور وہ ‘مے نوشی اور موسیقی کا آلہ وینا بجانا پسند کرتے تھے۔ یہ وہ آلہ تھا جو ہندو دیویوں کی پسند تھا۔ اور یہ کہ کسی بھی مغل حکمران کے مقابلے میں ان کے زیر نگرانی موسیقی کی زیادہ کتابیں لکھی گئیں تھی۔‘ لیکن ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘اورنگزیب نے اپنی سیاسی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیا تھا۔ جیسا کہ آج کل کے انڈیا کے حکمران کر رہے ہیں۔
پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ ’یہاں سوال یہ ہے کہ اگر اورنگزیب صرف جابر اور ظالم انسان ہی تھا، ایک فرقہ پسند اور بنیاد پرست جس نے مندروں کو مسمار کیا، تو کیا آج ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے؟‘ ‘وہ ایک جابر اور 300 سال پہلے حکمران تھا۔ اس دور میں آج کے جدید دور کی طرح کی جمہوریت نہیں تھی، اس کی رہنمائی کے لیے کوئی آئین نہیں تھا۔ لیکن آج ہم انڈیا کے آئین اور پارلیمان کے قوانین سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ تو پھر ہم کیسے اس کے اقدامات کی تقلید کر سکتے ہیں جو وہ 16ویں اور 17 ویں صدی میں کرتا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر کوئی آج 17 ویں صدی کی طرز پر سیاست کر رہا ہے تو وہ اورنگزیب کی جانب سے 17ویں صدی میں کیے گئے جرائم سے زیادہ بڑا جرم کر رہا ہے۔‘
(بشکریہ: بی بی سی )