تجزیہ:ایم۔ ریاض ہاشمی۔
جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی زبردست شکست نے پارٹی کی حکمت عملی، اتحاد مینجمنٹ اور انتخابی مہم کے طریقوں پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ 81 اسمبلی نشستوں میں سے بی جے پی صرف 21 نشستیں جیت پائی، جو کہ 2019 کے مقابلے میں 4 نشستیں کم ہیں۔ خاص طور پر قبائلیوں کے لیے مخصوص نشستوں پر پارٹی کی حالت انتہائی خراب رہی، جہاں 28 میں سے صرف سرائیکلا کی نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔ 2019 میں یہ تعداد 2 تھی۔
بی جے پی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ قبائلیوں کا رگھوور داس حکومت کے چھوٹا ناگپور کاشتکاری ایکٹ (سی این ٹی ایکٹ) میں ترمیم کی کوششوں سے پیدا ہونے والا عدم اطمینان ہے۔ 2016 میں مجوزہ ترمیم نے قبائلی برادری میں یہ احساس پیدا کیا کہ ان کی زمینیں صنعت کاروں کے ہاتھوں جا سکتی ہیں۔ یہ مسئلہ آج بھی قبائلیوں کے ذہن میں ایک گہرے زخم کی طرح موجود ہے، جسے چمپائی سورین جیسے رہنماؤں کو شامل کر کے بھی مندمل نہیں کیا جا سکا۔
بی جے پی کی شکست کی اہم وجوہات:
1. سی این ٹی ایکٹ کا زخم:
رگھوور داس حکومت کی 2016 میں سی این ٹی ایکٹ میں ترمیم کی کوششوں نے قبائلی برادری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کا اثر پارٹی کی کارکردگی پر مسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 2014 میں بی جے پی نے 28 قبائلی نشستوں میں سے 11 نشستیں جیتی تھیں، جو 2019 میں گھٹ کر 2 اور 2024 میں 1 رہ گئی۔ ترمیم کے خلاف اتنا گہرا ردعمل تھا کہ واپس لینے کے باوجود بی جے پی اس ناراضگی کو دور نہیں کر پائی۔
*2. ہیمنت اور کلپنا کا توڑ نہ ڈھونڈ پانا:
بی جے پی نے قبائلی ووٹروں کو رجھانے کے لیے بابولال مرانڈی کو کھلی چھوٹ دی، لیکن وہ خود قبائلی نشست چھوڑ کر جنرل سیٹ سے انتخاب لڑے، جس سے غلط پیغام گیا۔ ہیمنت سورین کے خلاف بیرونی رہنماؤں کی جارحانہ حکمت عملی، مرکزی ایجنسیوں کے چھاپے، اور انہیں جیل بھیجنے کی کوششیں الٹا پڑ گئیں۔ دوسری طرف، ہیمنت سورین اور ان کی بیوی کلپنا سورین کا سیدھا عوامی رابطہ بی جے پی کے لیے چیلنج بن گیا۔
3. دراندازی کا مسئلہ بے اثر:
بی جے پی نے سنتھال پرگنہ میں بنگلہ دیشی دراندازی کا مسئلہ زور و شور سے اٹھایا اور اسے پورے ریاست کا بڑا مسئلہ بنا دیا۔ ہیمنت بسوا سرما نے آسام کی طرز پر اسے انتخابی مہم کا مرکز بنایا، لیکن جھارکھنڈ کی مقامی حقیقتوں سے مطابقت نہ ہونے کے سبب یہ حکمت عملی ناکام رہی۔ دراندازی والے علاقوں میں بھی بی جے پی کی کارکردگی کمزور رہی، اور پارٹی اپنی مضبوط گرفت والی راج محل نشست بھی کھو بیٹھی۔
4. مقامی رہنماؤں کی نظرانداز کرنا:
بی جے پی نے اس بار انتخابی مہم کی قیادت مرکزی قیادت اور بیرونی رہنماؤں جیسے ہیمنت بسوا سرما اور شیوراج سنگھ چوہان کو سونپ دی۔ مقامی رہنماؤں کو حاشیے پر ڈالنے اور بہار جیسے قریبی ریاستوں کے مؤثر رہنماؤں کو مہم میں شامل نہ کرنے سے کارکنوں میں کنفیوژن پیدا ہوا۔
5. انتخابی منشور بمقابلہ انڈیا اتحاد کا عوامی رابطہ:
بی جے پی کا منشور چاہے مضبوط تھا، لیکن ہیمنت سورین کی قیادت والے انڈیا اتحاد کے وعدوں کے سامنے ماند پڑ گیا۔ خواتین کے احترام کی اسکیم کے تحت ہیمنت حکومت کی جانب سے خواتین کے بینک کھاتوں میں رقم ڈالنے کا بروقت قدم گیم چینجر ثابت ہوا۔ بی جے پی کا ₹2100 ماہانہ امداد کا وعدہ بھی انڈیا اتحاد کے ₹2500 ماہانہ کے وعدے کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا۔
ان نتائج کا کیا مطلب ہے؟
بی جے پی کی شکست جھارکھنڈ میں قبائلی ناراضگی اور عوام سے کٹی ہوئی انتخابی مہم کی بڑی کہانی بیان کرتی ہے۔ بیرونی رہنماؤں پر انحصار اور مقامی مسائل کی نظراندازی نے پارٹی کو بڑا نقصان پہنچایا۔ ان نتائج نے بی جے پی کو خود احتسابی کا واضح پیغام دیا ہے۔ دوسری جانب، ہیمنت سورین کی مضبوط گرفت اور انڈیا اتحاد کی حکمت عملی نے انہیں ریاست کی سیاست میں مزید مضبوط کر دیا ہے۔