پوربندر :(ڈی ڈبلیو)
گجرات ہائی کورٹ میں حال ہی میں ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں تقریباً 600 مسلمانوں کے لیے ’قتل رحم‘ یا ترس کھا کر جان لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ درخواست پوربندر کے ساحلی علاقے گوساباڑا میں رہنے والے سو مسلم ماہی گیروں کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے اللہ رکھا اسلام بھائی تھمر نے دائر کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گجرات میں پوربندر کے ساحلی علاقوں میں بسے ماہی گیروں کی زندگیاں ہزاروں برسوں سے تسلی بخش انداز میں گزر ہی جاتی تھیں۔ تاہم اب وہ اپنے لیے موت کی تلاش میں ہیں۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے یہ خبر مہاتما گاندھی کے آبائی شہر پوربندر کی ہے، جنہیں بھارت میں بابائے قوم کا درجہ حاصل ہے۔
معاملہ ہے کیا؟
اطلاعات کے مطابق گجرات ہائی کورٹ میں گزشتہ ہفتے ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں عرضی گزار نے اپنے اور اپنی مسلم ماہی گیر برادری کے 600 افراد پر مشتمل کنبوں کے لیے رحم کی بنیاد پر موت کی اجازت دینے کی درخواست کی ہے۔
ہائی کورٹ سے کہا گیا ہے کہ مقامی ’’حکومت ایک خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کوئی سہولیات فراہم نہیں کرتی اور مسلم ماہی گیروں کی برادری کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال قابل افسوس ہے‘‘، جنہیں کام کرنے اور کچھ کمانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
یہ درخواست گوساباڑا مسلم فشرمین سوسائٹی کے سربراہ اللہ رکھا اسماعیل بھائی کی جانب سے دائر کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مسلم ماہی گیروں کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے۔ درخواست گزار اب ’’سیاسی ظلم و ستم کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی ہی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘‘
اسماعیل بھائی کا الزام ہے کہ حکام ’’مذہب کی بنیاد پر ان ماہی گیروں کے خاندانوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندو ماہی گیروں کو تمام سہولیات باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہیں، لیکن لائسنس ہونے کے باوجود ’’مسلم ماہی گیروں کو کام کرنے کی اجازت تک نہیں۔‘‘
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ مسلم ماہی گیروں نے ریاستی وزیر اعلیٰ اور گورنر تک بھی اپنی شکایت پہنچائی ہے، انہیں یادداشتیں بھیجی ہیں تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود کسی نے بھی ان کی فریاد نہیں سنی۔
عدالت سے فریاد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں درخواست گزار اور اس کی کمیونٹی کی 600 زندگیوں کے لیے ان کی خواہشات کے مطابق خوشی سے اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایت نامہ جاری کرے۔
اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی ہمیشہ ’ملک سے وفادار‘ رہی ہے اور کبھی بھی اسمگلنگ جیسی ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں بھی ملوث نہیں رہی۔ اس کے برعکس مسلم ماہی گیروں نے اکثر ایسی سرگرمیوں کے بارے میں ’سیکورٹی ایجنسیوں کو معلومات فراہم کی ہیں‘ جو ’پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے اسپانسر کی جاتی ہیں‘۔
درخواست گزار کے وکیل دھرمیش گورجر نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ سن 2016 سے گوساباڑی بندرگاہ میں کشتیوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ اور ’’اسماعیل بھائی اور ان کی برادری کے پاس لائسنس ہونے کے باوجود ان کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘‘
اللہ رکھا اسماعیل بھائی کا کہنا ہے کہ گوساباڑا کے پڑوس میں رہنے والی ہندو برادریوں کے پاس انہیں کے گاؤں جیسا ماہی گیری کا لائسنس ہے لیکن انہیں اپنی کشتیاں سمندر میں لے جانے کی اجازت ہے۔ تو ’’ہمیں کیوں یکساں حقوق اور سہولیات نہیں دی جاتیں؟‘‘