تحریر : مسعود جاوید
کیوں لکھتے ہیں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب خیالات کا ہجوم ذہن پر سایہ فگن ہوتا ہے، جب اپنے اردگرد ہونے والے واقعات و حادثات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں تو وہ مشاہدات ہمارے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے ہیں اور دل پر بوجھ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بوجھ ہمیں بے چین کرتا ہے تو بسا اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان بے ہنگم خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر لوگوں کے سامنے انڈیلتے ہیں اور اس طرح اپنے دل کا بوجھ اتارتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں اور ہر زبان کے ادیب، شاعر اور صحافی، آرٹسٹ، نغمہ نگار اور موسیقار میں یہ قدر مشترک ہوتا ہے جسے تخلیق کا کرب کہا جاتا ہے۔
تخلیق کی دو قسمیں ہیں آمد spontaneous اور آورد on demand.
آمد کی وقعت زیادہ ہوتی ہے اس لیے کہ وہ اندرونی احساسات کا حقیقی مظہر ہوتی ہے۔ تصنع سے پاک ایسی تخلیقی کاوش کرنے والوں میں ستائش کی تمنا ہوتی ہے اور نہ صلے کی پرواہ۔ وہ تو بس اپنی تخلیقی کرب کی تسکین اور بے قراری کے قرار کے لئے یہ کام کرتے ہیں بعد میں جوہر شناس اور قدردان اس کی تخلیق کی قدر و قیمت متعین کرتے ہیں۔
#آورد عموماً یہ لکھا نہیں لکھایا جاتا ہے۔ فلموں کے مناظر کے ڈیمانڈ کے مطابق نغمے لکھنا، درباروں میں راگ درباری الاپنا، ظل الٰہی کی قصیدہ خوانی کرنا، مقتدر شخصیات کے مناقب لکھنا وغیرہ ۔۔۔۔۔ آج کل paid media اسی زمرے میں آتا ہے جو حکومت، سرمایہ داروں اور اثر ورسوخ والوں کے خلاف زبان کھولنے کی بجائے ان کی خراب کارکردگی میں بھی بعض مثبت یا فرضی مثبت بیانیے کو چلاتا رہتا ہے۔ یہ ان صحافیوں اور اینکروں کی ذاتی رائے نہیں ہوتی وہ ایسا لکھتے نہیں ان سے لکھایا جاتا ہے۔
صحافی کا فریضہ منصبی اپنی کھوج کے مطابق غیر جانبدار ہو کر حقائق سے عوام کو رو برو کرانا ہے۔ تاہم ان دنوں حالات اتنے بدتر ہیں کہ معتبر میڈیا ہاؤسز بھی بیچ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے چل رہے ہیں۔۔۔۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فساد کے نتیجے میں اتنے لوگ جاں بحق ہوئے آتش زنی میں اتنی جائداد دکان اور مکان خاکستر ہوئے، کورونا وباء سے مرنے والوں کی تعداد اتنی اور
سماجی تنظیموں کے مطابق یہ اتنی ۔۔۔۔ یہ کہہ کر نکل جانا کافی نہیں ہے آپ ، بحیثیت ذمہ دار صحافی، نے کیا پایاآپ کی چھان بین کے نتیجے میں امر واقعی کیا ہے اس سے انتظامیہ اور عوام کو آگاہ کریں۔
امریکہ میں 23 کروڑ لوگوں کا ویکسینیشن ہوا، ہندوستان میں 20 کروڑ لوگوں کا یعنی ویکسینیشن میں ہم امریکہ کے ساتھ تقریباً شانہ بہ شانہ چل رہے ہیں ! یہ کسی صحافی نے لکھا نہیں اسے لکھایا گیا ہے۔ایسے صحافی جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں وہ صحافت کے ماتھے پر کلنک ہیں۔ ایک دیانتدار صحافی لکھتا تو عوام کو حقیقت سے رو بہ رو کراتا کہ حکومت کی خراب کارکردگی اور متوقع دوسری لہر کے تئیں مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ اب تک ملک کی دو سے پانچ یا دس فیصد آبادی کو ویکسین لگائی گئی ہیں۔ (اٹھارہ سال سے کم والوں کو نہیں لگایا جا رہا ہے)
لکھنے والوں میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ ان میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں :
1- وہ جو حالات سے متاثر ہوتے ہیں، معاملہ فہم ہوتے ہیں اور’ہوم ورک ‘ تحقیق کر کے لکھتے ہیں۔
2- جو ملک میں پیش آنے والے بعض واقعات سے اس قدر منفعل ہو جاتے ہیں کہ ہر وہ خبر جو ان کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہے خواہ وہ فیک ہو ، بنائی ہوئی ہو فرقہ پرست آئی ٹی سیل کے لڑکوں کے ذریعے مسلم آئی ڈی سے یا کسی تنظیم کے نام سے واٹس ایپ پر چلائی گئی ہے اسے بغیر تحقیق آگے بڑھاتے رہتے ہیں حالانکہ اس سے فقط ان کے اندر کا بخار باہر نکلتا ہے لیکن حقیقت میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر وہ بغیر اجرت کسی سیاسی پارٹی کے لئے کام کرتے ہوتے ہیں۔
رائے عامہ بنانے کے لئے لکھنا بہت موثر ذریعہ ہے۔ لیکن عموماً ہم اردو میں لکھتے ہیں ہمارے قارئین کا مخصوص حلقہ ہے بلکہ بلا تکلف کہا جائے تو صرف مسلمان ہیں۔ تقریباً نوے فیصد مسلمان اس سیاسی جماعت اور فرقہ پرست تنظیم کے مخالف ہیں یعنی وہاں اس پارٹی اور تنظیم کے خلاف رائے عامہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب رہ گئیں دوسری سیاسی پارٹیاں تو ہر شخص ایک آزاد شہری ہے اور آئین اسے حق رائے دہی کی آزادی دیتا ہے اس لیے جبر نہیں کر سکتے ہاں اعداد و شمار ثبوت و دلائل کی روشنی میں کسی پارٹی کی اچھی یا بری کارکردگی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حق میں رویہ سے روشناس کرا سکتے ہیں۔
اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے متعلق اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی رپورٹ اور آرٹیکل پہلے، بہت کم سہی ، مین اسٹریم میڈیا انگریزی اخبارات میں چھپتے تھے۔ عالمی برادری بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سے آگاہی حاصل کرتی تھیں۔ اس ضمن میں غالباً اسی کی دہائی میں ڈاکٹر منظور عالم صاحب نے ملی کونسل کے قیام سے پہلے، اخبارات میں ایسی خبروں اور آرٹیکل کے تراشے جمع کرنے کا کام شروع کرایا تھا۔ اقلیتوں پر کام کرنے والی عالمی تنظیموں کو اس سے کافی مواد مل جاتا تھا۔
گرچہ مین اسٹریم میڈیا میں ایسی خبروں کو اب جگہ نہیں یا شاذونادر ملتی ہے پھر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے بشرطیکہ جذباتی نعروں اور دعووں سے پرے حقائق پر مبنی الٹرنیٹ میڈیا کی رپورٹس اور ویڈیوڑ مرتب کئے جائیں۔