تحریر:ڈاکٹر یوسف رامپوری
گزشتہ چند ماہ کے دوران یمن کے حوثی باغیوں کی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی آئی ہے ۔اس اثنا میں انھوںنے یمن کے اندریمنی حکومت اور یمن کے باہر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر متعددحملے کیے ہیں۔اگرچہ سعودی عرب پر حوثی باغی گزشتہ کئی سالوں سے ڈرون حملے کررہے ہیں، مگر اب انھوںنے متحدہ عرب ا مارات کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات پر ان کے حملے میں کئی افراد جاں بحق بھی ہوئے جن میں دوہندوستانی بھی شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد ساری دنیا میں حوثی باغیوں کی بڑھتی طاقت اور جارحیت پر تشویش کا ا ظہار کیاجارہا ہے بلکہ امریکہ نے تو حوثی باغیوں سے نمٹنے کے لیے متحدہ عرب امارات کی مدد کا اعلان بھی کردیاہے۔امریکی سکریٹری دفاع لائنڈ آسٹن کے مطابق ’’امریکہ کی جانب سے یو اے ای میں ففتھ جنریشن جنگی طیارے نصب کیے جائیں گے۔‘‘حوثی باغیوںکے خلاف یواے ای کی حمایت میں امریکہ کے علی الاعلان میدان میںآجانے کے بعد یہ اندازہ لگالینا کچھ مشکل نہیں کہ اب یمن میں تباہی کا دائرہ اور پھیل جائے گا۔اس لیے کہ حوثی باغیوںکے ٹھکانے یمن کے اندر موجود ہیں ۔ظاہر ہے کہ حوثی باغیوں پرحملے کرنے کا مطلب ہے یمن کے اندرموجود مختلف مقامات پرحملے کرنا۔ عام طورپر فضائی بمباری میں عام شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں اورعمارتوںکا بھی نقصان ہوتا ہے بالخصوص امریکہ کی فضائی بمباری میں بڑے پیمانہ پر عوامی نقصان ہوتا ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہمیں عراق اور افغانستان میں مل جاتی ہیں۔اب اگر امریکی طیاروں کے ذریعے یمن میں موجودحوثی باغیوںپر حملے کیے جاتے ہیںتو پبلک مقامات کامتاثر ہونا تعجب خیز بات نہیں ہے۔
یمن میں پہلے ہی سے خوفناک لڑائی جاری ہے۔رپورٹوں سے پتہ چلتاہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کا تعاون حاصل ہے۔ وہ حکومت سے لڑنے میں اس کی ہر ممکن مدد کرتاہے ، یہاں تک بعض رپورٹوں کے مطابق جدید ترین ہتھیار بھی اسے فراہم کرتا ہے۔ ایران کی زبردست مدد کی وجہ سے ہی حوثی باغی نہ صرف یمنی حکومت سے ٹکرارہے ہیں بلکہ حکومت کی پشت پر موجود کئی عرب ممالک سے بھی مقابلہ کررہے ہیں۔عرب ممالک کا یمنی حکومت کی مدد کرنا اور ایران کا حوثیوں کا تعاون کرنایہ واضح کرتا ہے کہ یمن میں صورت حال کس قدر ناگفتہ بہ ہے۔ اب براہ راست امریکہ بھی اس جنگ میں کود گیا ہے ، تو یمن میں جاری جنگ یا تو اورزیادہ طول اختیار کرلے گی یا پھر بہت زیادہ شدید ہوجائے گی۔لیکن یہاں یہ اس نکتہ پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ کیا نقصان کا دائرہ صرف یمن تک محدود رہے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو براہ راست اپنے ساتھ شامل کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات کو بھی اچھے خاصے نقصان سے دوچار ہونا پڑسکتاہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب عراق نے کویت پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا تو امریکہ نے کویت کا ساتھ دیا تھا اور اس کے لیے سعودی عرب کی زمین استعمال کی گئی تھی۔ اگرچہ بہت سے دوسرے ممالک بھی کویت کے حامی اور عراق کے خلاف تھے مگر ان میں سب سے زیادہ پیش پیش امریکہ تھا۔ عراق کے چنگل سے کویت کو چھڑانے کے بعد امریکہ نے کویت کا آسانی کے ساتھ پیچھا نہیں چھوڑدیا بلکہ بہت کچھ حاصل کیا ، اتناہی نہیں بلکہ سعودی عرب سمیت جزیرہ العرب کے مختلف ممالک میں اس نے اپنے اثرات کو بڑھالیا۔آج امریکہ عرب ممالک کی کمزوری بنا ہواہے۔چنانچہ وہ کوئی بھی قدم امریکہ کی مرضی کے خلاف اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتے ۔ امریکہ نے عرب ممالک میں نکلنے والے قدرتی ذخائر سے بھی بہت فائدہ اٹھایا ہے اور ان ممالک کواپنے بہت سے ہتھیار فروخت کرکے خوب پیسہ کمایا ہے اور آج بھی کمارہا ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عرب ممالک میں جوملک زیادہ دولت مند ہوتا ہے ،امریکہ اس سے دوستی کرنے اور اس کا ساتھ دینے میں ذرا ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتا۔کویت دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے تھا، اس لیے وہ فوراً کویت کی مدد کے لیے تیار ہوگیا ،ایسے ہی سعودی عرب معاشی اعتبارسے مضبوط ملک ہے، اس لیے اس کی مدد کے لیے بھی کھڑا ہوگیا۔اب بہت تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والا ملک متحدہ عرب امارات ہے ،لہذا اس ملک کا ساتھ دے رہا ہے،تاکہ زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کیے جاسکیں اور اس ملک کو بھی اپنی مٹھی میں رکھا جاسکے۔اب یہ الگ بات ہے کہ عرب ممالک امریکہ کے ارادوںکوسمجھنے سے قاصر ہیں اور اسے اپنا معاون خیال کرتے ہیں۔ جب کہ ایسا حقیقت میں نہیں ہے۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں امن وامان قائم ہوتا ۔جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے امریکہ نے عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو بڑھایا ہے ، عرب ممالک مختلف قسم کے خطرات سے دوچار ہیں۔شام میں ایک خوفناک جنگ جاری ہے جس میں نہ صرف شام یا شام کے بعض مزاحمت پسند گروہ شامل ہیں بلکہ مشرق وسطی کے مسلم ممالک بھی اس میں حصہ دار نظرآتے ہیں۔امریکہ عرب ممالک کاسا تھ دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنا طاقتور ہونے کے باوجود بھی امریکہ اس جنگ کو ختم کرانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکا ہے۔گزشتہ تین دہائیوںکے دوران عراق میں جو تباہیاں ہوئیں، ان سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرسکے کہ ان تباہیوںکے پیچھے امریکہ کا منفی رول رہا ہے۔ا س سے پتہ چلتاہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتا کیونکہ جنگ ختم ہونے کی صورت میں ان ممالک کو امریکہ کی اتنی زیادہ ضرورت نہ رہے گی۔
مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کے ساتھ امریکہ کی منافقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ایک طرف وہ شام اور یمن میں ان کا ساتھ دے رہا ہے ، مگر دوسری طرف فلسطین کے قضیہ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔بلکہ ا س کی مدد سے ارض فلسطین پر یہودی اپنا ایک ملک بنانے میں کامیاب ہوگئے۔اسرائیل کے قیام میں جن ممالک نے بنیادی کردار اداکیا،ان میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش ہیں۔ جب جب بھی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہوئی ، امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیا،اس لیے کئی عرب ممالک ملنے کے باوجود اسرائیل کو ہرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔آج بھی جب کہ اسرائیل فلسطین کی زمین پر قبضہ کرکے اپنی حدود کو وسیع کررہا ہے ، تب بھی امریکہ اسی کی پشت پناہی کرتا ہوا نظرآتاہے۔ ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والااسرائیل آخر کئی مسلم ممالک پر کیوں حاوی ہوجاتاہے، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اس کا تعاون کرتے ہیں۔اسرائیل کو طاقتور ملک بنانے میں بھی ان ممالک کا کردار رہا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے اس دوغلے کردار کے باوجود بھی اگر کوئی واقعہ عرب ممالک میں رونما ہوتا ہے تو وہ امریکہ کے آگے ہی مدد کا ہاتھ پھیلانے لگتے ہیں۔یعنی اپنے اندرونی معاملات میں اسے مداخلت کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔وقتی طورسے بھلے ہی انھیں راحت حاصل ہوجاتی ہے مگر مستقل طورپر وہ ایک ایسے جال میں پھنس جاتے ہیں کہ جس سے وہ چاہنے کے باوجود بھی آسانی سے باہر نہیں نکل سکتے۔عرب ممالک کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی لڑائی خودنہیں لڑتے ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلم ممالک اپنے آپ کو معاشی اعتبارسے مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عسکری، تکنیکی اور سائنسی اعتبار سے بھی مضبوط کریں تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں اور اپنی لڑائی خود لڑسکیں۔ جب تک وہ اپنی لڑائی خود لڑنے کے قابل نہیں ہوںگے اس وقت تک وہ غیر محفوظ نہیں ہوسکیں گے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)