تحریر: شمائلہ حسین
بھائی اللہ معاف کرے ، ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔۔۔ یہ جملہ آپ نے کئی بار اپنے بڑوں سے سنا ہوگا۔ جب کبھی وہ کچھ نیا دیکھتے ہیں اور ایسا نیا جو ان کی روایتی سمجھ سے باہر ہو تو سب سے پہلے اسے رسم و رواج کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے ۔
جب اس سے بات نہ سنبھلے تو اس کو مذہب سے دوری کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے، جب یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے تو اس نئے پن کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ جب یہاں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے تو اس تبدیلی کو بہر حال قبول کر لیا جاتا ہے۔
زیادہ دور کیا جانا یہ ماضی قریب میں ہی چلے جاتے ہیں ۔ کہاں رواج تھا کہ لڑکیاں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھیں ، جس نے خاندان ، محلے یا شہر میں سے پہلا قدم گھر سے باہر نکالا، اسے مشترکہ طور پر تنقید کی زد پر رکھ لیا جاتا۔ اسے آوارہ اور بد چلن سمجھا جاتا اور کوشش کی جاتی کہ اس لڑکی سے اپنی بیٹیوں کو دور رکھا جائے، کہیں وہ اس کی دیکھا دیکھی اس آزادی کا مطالبہ نہ کردیں۔ جب کوئی پڑھی لکھی خاتون ملازمت کرتی تو بھی ایسی عورت کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، اس کے خاندان کو عورت کی کمائی کھانے کا طعنہ دیا جاتا۔
ہمارے کچھ ادیبوں نے تو ملازمت کرنے والی خواتین کے خلاف لکھا بھی کہ ایسی عورتیں اچھی مائیں، اچھی بیویاں حتیٰ کہ اچھی عورتیں ہی نہیں ہوتیں۔ یہ خیال اس حد تک راسخ تھا کہ میں اپنے بچپن میں ہرٹیچر، نرس ، ڈاکٹر اور کسی بھی محکمے میں جاب کرتی ہوئی عورتوں کو برا ہی خیال کرتی تھی۔
بانو قدسیہ نے اپنے ناول ‘ راجہ گدھ ‘ میں عورتوں کے اس رویے پر بھی بات کی کہ ٹوپی والا برقع پہننے والی عورت انگریزی برقعے میں لپٹی عورت کو بدکردار خیال کرتی ہے ۔ انگریزی برقعے والی چادر برقعے والی کو، چادر برقعے والی صرف چادر میں لپٹی ہوئی کو ، چادر والی دوپٹہ اوڑھے ہوئے کو، دوپٹہ اوڑھنے والی گلے میں دوپٹے والی کو جبکہ گلے میں دوپٹے والی بغیر دوپٹے والی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
اور مزے کی بات یہ کہ ان سب کی بزرگ عورتیں انہیں بھی یہ کہنے سے نہیں چوکتیں کہ ان کے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
اسی طرز پر جب کسی گاؤں میں دھوتی کرتے کے علاوہ کسی مرد کو شلوار قمیض میں دیکھا جاتا توا س کا مذاق اڑایا جاتا۔ جب یہ شلوار قمیض عام چلن کا حصہ ہوگیا تو پتلون پہننے والے کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا۔ جب پتلون والے کو قبول عام کا درجہ ملا تو ٹی شرٹ اور شارٹس والوں کو ‘بے حیا‘ سمجھا گیا ۔ اور ان کے بزرگوں کو یہ کہتے بھی دیکھا کہ ان کا زمانہ تو بہت سادہ و معصوم تھا۔
اپنے بچپن میں جائیے اور غور کیجیے جب گھروں میں پہلی بار ٹیلی وژن آیا تھا تو کیسے کیسے فتوے دیے گئے تھے۔ مجھے میری نانی اماں یاد ہیں جو ٹی وی پر دکھنے والے نا محرموں کو دیکھ کر ہمیں گالیاں دیا کرتی تھیں کہ وہ ہمارے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہم منہ پھاڑ سر جھاڑ بے شرمی کے ساتھ انہیں دیکھ رہے ہوتے تھے اور انہیں یہ یقین تھا کہ وہ مر د بھی ہمیں دیکھتے ہوں گے۔
یہ ہی ٹی وی جسے شیطان کا آلہ کار کہا جاتا رہا اور بزرگوں کے منہ سے سنتے رہے کہ ان کے زمانے میں ایسی بے شرمی نہیں ہوا کرتی تھی ، وقت کے ساتھ ساتھ ان بزرگوں کی واحد پسندیدہ تفریح بن گیا۔ جن مولویوں سے فتوے لیے جاتے تھے جو تصویر کو حرام کہتے تھے، جنہوں نے چوک میں ٹیلی وژن رکھ کے ان کے ڈھیر جلائے تھے ، آج ان کے اپنے چینلز ہیں۔
موبائل فون کی طرف آجائیں، جب خط کا زمانہ تھا تو گھر کی لڑکیاں پڑھانے لکھانے سے گریز کیا جاتا تھا کہ کہیں وہ خط لکھنے پڑھنے کے فن سے آگاہ نہ ہوجائیں کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو وہ ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ جب لڑکیوں کی تعلیم اور خط لکھنے پڑھنے کو عیب سمجھنا چھوڑا گیا تو ٹیلی فون جیسی ‘بے حیائی‘ نے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔
شروع میں گھر کی عورتوں کو اجازت بھی نہ ہوتی کہ گھنٹی بجنے پر وہ فون اٹینڈ کر لیں، کسی نامحرم کو ان کی آواز کیوں سنائی دے اور کسی نامحرم کی آواز وہ کیوں سنیں ۔ جب یہ بات عام ہو گئی تو موبائل فون نے نیا چیلنج سامنے رکھ دیا جب تک یہ بہت مہنگا تھا عام لوگوں کی رسائی میں نہیں تھا تب بھی کسی اداکار یا ادکارہ کے پاس ہونے کی صورت میں اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ۔ جب یہ ہر کسی کے ہاتھ آگیا تو سب سے پہلی بات جو سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ موبائل فون جس لڑکی کے پاس ہو گا وہ یقیناً ‘بے حیا‘ ہوگی اور آج ایسا کہنے والوں کے شیر خوار بچوں کے ہاتھوں میں بھی موبائل ہیں۔
غرض زندگی کے ہر قدم پر آگے بڑھتی اس تیز رفتار دنیا میں آپ لمحہ لمحہ تبدیلی سے گزرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ زمانہ رکا رہے۔ آپ جس جگہ کو چھوڑ کر آجاتے ہیں کچھ مدت بعد واپس وہاں جانے پر کسی قسم کی تبدیلی پر اکثر لوگوں کو میں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔
بہت سی شاعری اور فکشن بھی گزرے زمانے اور معاملات کے ختم ہوجانے کے نوحے بیان کرنے پر مشتمل ہے۔ عظمت رفتہ پر رونا دھونا بھی دنیا کے چلن کا حصہ ہے، جو ہمارے پاس ہے جو موجود ہے اسے قبو ل نہ کرنا اور گزرے وقت کی یادوں کو سینے سے لگا کر اس وقت کے لوٹ آنے کی تمنا انسانی رویوں میں سب سے نمایاں رویہ ہے۔ کچھ لوگ اسے ‘ناسٹیلجیا‘ کا نام دیتے ہیں اور گزرے وقت کی اچھی باتوں کو یاد کرنا اور آپس میں ان یادوں کے تبادلے کو مثبت خیال کرتے ہیں ۔
لیکن اس رویے کو کیا نام دیا جائے کہ آپ کسی بھی تبدیلی کو قبول نہ کریں اور ہر نسل بعد میں آنے والی نسل کے لیے اپنے دور کے پیمانے سیٹ کر کے بیٹھی رہے اور ان کے ہر اٹھتے قدم پر یہ اعتراض لگائے کہ یہ ان کے زمانے میں نہیں تھا تو اب اس نسل کے زمانے میں میں بھی نہیں ہونے دیں گے۔
نسل انسانی کے ارتقاء کا راز ہی جب یہ ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتے جائیں تو کس لیے اپنے بچوں اور دوسروں کے آگے بڑھنے کے راستے میں رکاوٹیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ کیوں ہر بعد والی نسل پر فرض ہے کہ وہ آپ کے دور کے حساب سے اپنے دور سے بیس پچیس یا پچاس سال پیچھے رہ کر زندہ رہے۔
اب اس رویے کو بدلنے پر غور کریں تاکہ ہم اور ہماری اگلی نسلیں دنیا سے کئی سو سال پیچھے رہنے کی بجائے ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں اور دنیا کی امامت کا جو خواب آپ پتھر کے دور میں جا کر پورا کرنا چاہ رہے ہیں وہ اگلے وقتوں میں نئے دور کے تقاضوں کے حساب سے در حقیقت پورا ہو سکے۔
(بشکریہ : ڈی ڈبلیو)