تحریر:شکیل رشید -ممبئی
کرناٹک کے ایک کالج میں ،باحجاب طالبات کو، کلاسوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کے دوران ’ جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگانے والوں کے جواب میں ’ اللہ اکبر ‘ کا نعرہ بلند کرنے والی طالبہ مسکان خان کیا مذہبی جنونی ہے؟ کیا مسکان خان اشتعال انگیزی کی مرتکب ہوئی ہے؟ اور کیا برقعے ، پردے اور حجاب کا معاملہ صرف ایک مذہبی معاملہ ہے؟ یقیناً کوئی بھی بھاجپائی ، سنگھی اور اکثر لبرل مذکورہ سوال کا جواب ’ ہاں ‘ میں ہی دیں گے ،لیکن سچ یہ ہے کہ نہ مسکان خان کا ردِ عمل صرف مذہبی تھا اور نہ ہی برقعے ، پردے اور حجاب کا معاملہ صرف ایک مذہبی معاملہ ہے ۔ یہ معاملہ ’ مذہبی آزادی ‘ کا بھی ہے ،اسی لیے یہ ’ آ ئینی حقوق ‘ کا معاملہ بھی بن جاتا ہے ۔اور سماجی ، تہذیبی اور ناانصافی کا معاملہ بھی ۔ مسکان خان کا انٹرویو جن افراد نے سنا ہوگا انہیں پتہ ہوگا کہ اس نے صاف لفظوں میں یہ کہا ہے کہ اس سے پہلے کبھی بھی طالبات کو حجاب پہننے سے نہیں روکا گیا ، اس نے یہ بھی کہا ہے کہ ابتدا میں اس نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب ’ جے شری رام ‘ کے نعرے تیز ہو گئے تو وہ ڈر گئی تھی اور ’’ جب میں ڈرتی ہوں تو اللہ کا نام لیتی ہوں اسی لیے میں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ‘‘۔ وہ لوگ جنہوں نے’ اللہ اکبر ‘ کے اس وائرل ویڈیو کو دیکھا ہوگا انہیں صاف نظر آیا ہوگا کہ اپنے گلے میں بھگوئے رنگ کا گمچھا ڈالے ہوئے نوجوان ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے بلند کر رہے ہیں اور صرف نعرے بازی تک ہی محدود نہیں ہیں وہ مسکان خان کو ، جو اس وقت اکیلی تھی ، گھیرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ،لیکن مسکان خان اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے ’ اللہ اکبر ‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ویڈیو بہت صاف طور پر یہ بتاتا ہے کہ اشتعال انگیزی مسکان خان نے نہیں کی تھی ،اشتعال انگیزی اپنے گلے میں بھگوئے رنگ کا رومال یا گمچھا ڈالے ہوئے نوجوان کر رہے تھے ۔سب کچھ بہت واضح ہے ،لیکن وہ جو ’ جھوٹ ‘ کے سہارے اپنی کشتی کھینے کی کوشش کر رہے ہیں سارے ’ سچ ‘ کو مسخ کرنے یا باالفاظ دیگر ’ جھوٹ ‘ قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کرناٹک کے وزیرِ تعلیم بی سی ناگیش نے سوال اٹھایا ہے ’’ اس نے کیوں مشتعل کیا ؟‘‘ یہاں اس نے سے ان کی مراد مسکان خان ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ وہ لڑکے اس کا( مسکان خان ) گھیراو نہیں کرنا چاہتے تھے ،جب وہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر رہی تھی تو اس کے قریب کوئی بھی نہیں تھا ،کیوں اس نے کالج کے کیمپس میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اشتعال انگیزی کی؟ کیمپس کے اندر ’ اللہ اکبر‘ یا ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی ۔‘‘
مسکان خان سے جن ٹی وی چینلوں نے بات کی ہے اگر انہیں سنا جائے تو یہ سچ بھی سامنے آتا ہے کہ وہ نوجوان جو ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگا رہے تھے باقاعدہ باحجاب طالبات کو کالج کے اندر حجاب پہن کر جانے سے روک رہے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں کالج میں جانا ہے تو حجاب اتار کر جانا ہوگا ،یہی نہیں وہ بدزبانی بھی کر رہے تھے ۔ لیکن بی جے پی لیڈر ،وزیرِ تعلیم بی سی ناگیش کو یہ سب بالکل نظر نہیں آیا، وہ صاف صاف شرپسندی کرنے والے نوجوانوں کو بچا گئے ،مگر انہیں مسکان خان کی اشتعال انگیزی نظر آ گئی! سنگھیوں کا بھی یہی حال ہے ،مثال اندریش کمار کی لے لیں جو آر ایس ایس کے مسلم ونگ ’ مسلم راشڑیہ منچ ‘ کے بانی ہیں ۔اندریش کمار نے تین طرح کے الزام عائد کیے ہیں ،ایک تو یہ کہ بی بی مسکان خان کا ،حجاب کے مسٔلے کوہوا دینےکے لیے، استعمال کیا جا رہا ہے ، دوسرا یہ کہ وہ بچی سازشی افراد کے ہاٹھوں میں کھیل رہی ہے اور تیسرا یہ کہ مسکان خان جینز پہنتی رہی ہے ۔
گویا یہ کہ برقع اور حجاب کے اس معاملے کو اندریش کمار نے سازش سے جوڑ دیا ہے اور بی بی مسکان خان کے کردار پر بھی انگلی اٹھا دی ہے ۔ کہیں سے ایک لڑکی کی تصویر بھی ڈھونڈ نکالی گئی ہے ،جو جینز پہنے ہوئے ہے او ر اسے مسکان خان کی تصویر قرار دیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ یہ وضاحت سامنے آ چکی ہے کہ تصویر مسکان خان کی نہیں ہے لیکن جو کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا چاہیں ان کے ہاتھ بھلا کون پکڑ سکتا ہے! ویسے کوئی جینز پہننے والی لڑکی یا عورت اگر باحجاب رہنا چاہے تو کیا مضائقہ ہے، وہ باحجاب رہ سکتی ہے ۔ رہی بات مسکان خان کے مذہبی جنونی ہونے کی ،جیسا کہ کچھ لوگ الزام لگا رہے ہیں ،یا اس کے ، والدین کے جبر کی وجہ سے برقعہ میں جکڑے رہنے کی ،جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے ،تو یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ وہ برقعہ اپنی مرضی سے پہنتی ہے ،وہ اسکوٹر چلا کر کالج آتی جاتی ہے اور اسے کالج تک آنے یا اپنی حفاظت کے لیے کسی کواپنےساتھ لانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔ مطلب صاف ہے ،وہ مذہبی شدت پسند نہیں ہے ، اسے پتہ ہے کہ برقعہ اس کی آزادی کے مانع نہیں آتا ،یہ اس کا ایک مذہبی حق بھی ہے اور آئینی حق بھی ۔
آئین سازوں کو یہ خوب اندازہ تھا کہ اگر لوگوں کو اپنے رہن سہن کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنی اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کے حقوق نہیں دیئے گئے تو ، ان کے ساتھ تعصب اور جانبداری کا برتاؤ ممکن ہے ،اسی لیے آئین میں کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں تاکہ لوگ اپنی تہذیب اور اپنے مذاہب پر بغیر کسی ڈر اور خوف کے عمل کر سکیں ۔ ہمارے سیاسی قائدین نے بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا کہ انہوں نے بھارت میں کسی مذہب کو خاص اہمیت نہ دے کر سب کو برابر اوریکساں حقوق دئیے۔ اس لیے آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے ، اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے اوراس کے اصولوں پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے ، اس سلسلے میں آئین کی دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے کہ ”تمام اشخاص کو آزادی ضمیرکی اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔‘‘ گویا یہ کہ اس ملک میں ہر شخص اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہے ،اس آزادی کو چھیننے کا مطلب آئینی حق کو چھیننا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا برقعہ پہننا ایک مذہبی حق ہے ؟ اس سوال کا جواب اس سوال سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی سرکاری دفتر میں دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کا لگانا ،ان پر پھول ہار چڑھانا یا کسی اسکول میںصلیب کا نصب کرنا یا سکھ فرقے کے افراد کو پگڑی پہننے کی اور کرپان رکھنے کی اجازت دینا ،یا بہت سے ہندوؤں کا اپنے ماتھے پر تلک اور ٹیکہ لگا کرسرکاری دفاتر میں آنا ،کیا مذہبی حقوق نہیں ہیں ؟بلاشبہ یہ سب مذہبی حقوق ہی ہیں ، لیکن قابلِ اعتراض نہیں ہیں ،کیونکہ یہ آئینی حقوق ہیں ،ان سے روکنا آئین کی توہین کرنا ہوگا ۔کیا لوگ نہیں جانتے کہ اس سیکولر ملک کی ایک ریاست اترپردیش میں ایک یوگی بھگوئے لباس میں وزیرِ اعلیٰ کی گدی پر بیٹھتا ہے ،ایک سادھوی ،جو مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ ہے ،بھگوئے لباس میں پارلیمنٹ میں جاتی ہے ؟ سب جانتے ہیں ،لیکن ہر ایک کو اپنی مرضی کا لباس ، چاہے وہ لباس مذہبی شناخت ہی کیوں نہ ظاہر کرتا ہو ، پہننے کی اجازت ہے ،کیونکہ یہ آئینی حق ہے ،اسی طرح انہیں بھی ،جو برقعہ پہننا چاہتی ہیں ،حق حاصل ہے کہ وہ برقعہ پہنیں ۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ کہیں کہ برقعہ مذہبی حق نہیں ہے ،لیکن سچ یہی ہے کہ برقعہ مذہبی حق ہے اور اسلامی شریعت میں برقعہ پہننے کی تاکید ہے ۔ اب کوئی برقعہ پہنے نہ پہنے اس کی اپنی مرضی ،نہ کسی کے پہننے سے شریعت بدل جائے گی نہ کسی کے نہ پہننے سے شریعت کے اصول تبدیل ہو جائیں گے ۔ یہاں صرف یہ کہنا مْقصود ہے کہ برقعہ یا حجاب سے روکنے کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی بھی ہے ،اور کسی کو اسے چھیننے کا حق نہیں ہے۔
ایک سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ آج کے انتہائی نفرت بھرے ماحول میں باحجاب رہنے پر اصرار کرنے کی کیا ضرورت ہے ،فی الحال تو امن و امان کی ضرورت ہے ۔ سوال مناسب ہے ،لیکن اس کے ساتھ ایک سوال یہ بھی تواٹھے گا کہ کس کس بات کو نظر انداز کیا جائے ؟ جب سے نریندر مودی کی سرکار بنی ہے مذہبی اور آئینی حقوق صلب کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا گیا ، یوگا ، سوریہ نمسکار ، گیتا کا لازمی پاٹھ ، وندے ماترم کا شوشہ ، لو جہاد کے نام پر تشدد، تبدیلی مذہب کے نام پر بے وجہہ کی گرفتاریاں ، شہریت کا انتہائی زہریلا قانون ، مدارس پر شکنجہ ، طلاقِ ثلاثہ کے نام پر شریعت میں مداخلت ، بابری مسجد کا فیصلہ ، اقلیت کی یونیورسٹیوں پر بُری نظر، گئو رکشا کے نام پر ماب لنچنگ اور قتلِ عام کے زہریلے ،اکسانے والے نعرے اور اعلانات۔ اور اب برقعہ کے نام پر طالبات پر حملے ۔ دفاع ضروری ہے ،اور دفاع ہی کیا جا رہا ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سارا کھڑاگ یو پی اسمبلی الیکشن کے تناظر میں پھیلایا گیا ہے ۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ اس ملک کے سارے ہندو ’ فرقہ پرست ‘ ہو گئے ہیں اور ایک برقعے کے معاملے پر اپنی سدھ بدھ کھو کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو گئے ہیں ؟ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں ،لیکن اگر یہ سچ ہے تب تو دفاع کی اور ضرورت ہے ۔ یہ آئینی دفاع ہے کوئی جنگ نہیں ہے ۔ یہ انصاف کی لڑائی بھی ہے کہ اس طرح جو ناانصافی کی جا رہی ہے اس کے خلاف آواز اٹھ رہی اور اٹھائی جا رہی ہے ۔ یہ سماجی ، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کی بھی لڑائی ہے کہ ساری کوشش یہی ہے کہ اس راشٹر کو ’’ ہندو راشٹر ‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے اور کسے کیا کھانا کیا پہننا اور کس طرح سے شادی کرنا ہے یہ چند لوگ طئے کریں اور سب اس پر عمل کریں ۔یہ اس جبر کے خلاف لڑائی ہے ، اس لڑائی کا حق بھی آئین نے دیا ہے ،بس اتنی احتیاط ضروری ہے کہ اس کو نہ جذباتی رنگ دیا جائے نہ اسے فرقہوارانہ رخ دیا جائے ۔
ایک بات ان سے بھی کرنی ہے جو اسے صرف ’’ آ زادی ‘‘ اور اسی مناسبت سے ’’ مرضی ‘‘ کا معاملہ کہہ رہے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کے نعرے کو نتھی کر رہے ہیں ۔ سچ ہے یہ ’’ آزادی ‘‘ کا معاملہ ہے ،مگر مذہبی اور آئینی آزادی کا ،یہ مذہب اور آئین کے خلاف اپنی ’’ مرضی ‘‘ چلانے کا معاملہ نہیں ہے ۔ اور نہ یہ ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کا معاملہ ہے ،کیونکہ جو برقعہ پہننے پر اصرار کر رہے ہیں ان کا یہ ماننا ہے کہ نہ یہ جسم ان کا ہے اور نہ اس جسم پر ان کی مرضی چلتی ہے ،یہ جسم بھی اللہ کا ہے اور اس پر مرضی بھی اللہ ہی کی چلے گی ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)