کسی بھی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات میں جہاں حکومتوں کی اہمیت ہوتی ہے تو وہیں اپوزیشن کی بھی۔ فی الوقت مالدیپ اور بھارت کے درمیان حکومتی سطح پر سب ٹھیک ہے لیکن مالدیپ کی اپوزیشن بھارت کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔ مالدیپ کے سابق صدر عبداللہ یامین بھارت مخالف مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ’مالدیپ میں بھارت کی موجودگی بس اب ختم ہونی چاہیے‘۔
حکومت بھی اپنے ملک میں بھارت مخالف مہم کے بارے میں فکرمند ہے۔ مالدیپ کی وزارتِ خارجہ نے 19 دسمبر کو ایک بیان جاری کیا کہ حکومت کو بھی بھارت کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت اور جھوٹ کے بارے میں تشویش ہے۔ وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت ان کا قریب ترین دو طرفہ شراکت دار ہے مگر کچھ چھوٹے گروہ اور کچھ رہنما پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہیں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے تو مالدیپ دنیا کی نئی ترین جمہوریتوں میں سے ایک، اور ان دونوں کے درمیان تعلقات کے پٹری سے اترنے کا خطرہ موجود ہے۔
اپوزیشن کی حمایت یافتہ ’انڈیا آؤٹ‘ تحریک ایک ہزار سے زیادہ جزیروں پر مشتمل اس ملک میں جڑ پکڑ رہی ہے۔
مالدیپ کے رکنِ پارلیمان احمد شیام نے اتر پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اکھلیش یادو کی پریس کانفرنس کی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘ہم بھارت کی موجودہ حکومت سے ہمارے آئین اور ہمارے اندرونی معاملات کے احترام کی توقع کبھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اپنے قانون اور اپنے شہریوں کا ہی احترام نہیں کرتے، بالخصوص اقلیتوں کا۔ ہم اپنی آزادی نہیں گنوا سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو بھی ہوتا ہے، مالدیپ کے مسلمانوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ مالدیپ ایک سُنّی مسلم اکثریتی ملک ہے۔ احمد شیام کا اشارہ اسی جانب ہے۔ ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے اسی سے مضبوطی مل رہی ہے۔
بھارت مخالف مہم کیوں؟
اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کے فوجی اہلکار اور ساز و سامان مالدیپ سے نکال دیا جائے۔یہ مہم 2018 میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ اپنے دو ہیلی کاپٹر اور ایک ڈورنیئر طیارہ وہاں سے لے جائے۔
یہ ہیلی کاپٹر اور طیارہ بھارت نے مالدیپ میں امدادی کارروائیوں کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ مالدیپ نے کہا تھا کہ اگر بھارت نے یہ تحفے میں دیے ہیں تو ان میں پائلٹ مالدیپ کے ہونے چاہئیں، نہ کہ بھارت کے۔ یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ لوگوں نے اس کے بارے میں سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔
رواں سال پانچ دسمبر کو آئیلینڈ ایوی ایشن سروس لمیٹڈ کے سابق ڈائریکٹر محمد امین نے کہا کہ بھارت سے ڈورنیئر لینا مسئلہ نہیں، ہم ڈورنیئر کے ساتھ انڈین اہلکاروں کی تعیناتی کے خلاف ہیں۔ ہمارے پاس اسے چلانے کے لیے کافی تجربہ موجود ہے۔ ہمارے پاس ان ہیلی کاپٹروں کی رجسٹری تبدیل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ واپس کرنے کا بھی حق ہونا چاہیے۔
اس سے قبل 15 نومبر کو محمد امین نے لکھا تھا: ‘ڈورنیئر کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ انڈین فوجیوں کو رکھنا یا بجٹ حاصل کرنا نامعقول ہے۔ ہم پانچ ڈورنیئر چلا رہے ہیں اور ہمارے پاس اسے چلانے کا تجربہ ہے۔ مالدیپی لوگ اسے چلا سکتے ہیں اور مالدیپ نیشنل ڈیفنس فورس کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس تحفہ قبول کرنے یا واپس کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
پروگریسیو پارٹی آف مالدیپ (پی پی ایم) اور اس کی اتحادی جماعتوں کا کہنا ہے کہ انڈین فوجیوں کو مالدیپ چھوڑ دینا چاہیے۔ مالدیپ کی ایک سابق وزیر لبنیٰ ظاہر نے چھ دسمبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘مجھے بھارتیہ پکوان، مصنوعات، دوائیں پسند ہیں مگر اپنی زمین پر انڈین فوجی نہیں۔ پی پی ایم کے ٹوئٹر ہینڈل نے 20 نومبر کو ٹویٹ کی کہ ‘انڈین فوجیوں کو فواملاہ شہر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ پی پی ایم کے لوگوں نے اسی بارے میں فواملاہ شہر میں سڑکوں پر بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔
چین کے حق میں مہم؟
ستمبر میں حکمران جماعت کے اپوزیشن دھڑے مالدیویئن ڈیموکریٹک پارٹی نے اسی حوالے سے ایک موٹر بائیک جلوس کا انعقاد کیا تھا۔ یامین بھی مالدیپ سے انڈین فوجیوں کے انخلا کا کھلم کھلا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور بھارت مخالف مطالبہ انڈین ایئرپورٹ آپریٹر جی ایم آر کے خلاف بھی کیا گیا تھا اور2012 میں جی ایم آر کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔
بھارت کو سری لنکا میں بھی مشکلات ہیں مگر وہاں سنہالا جماعت انڈیا اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات چاہتی ہے۔ دوسری طرف مالدیپ کی پی پی ایم جماعت بھارت کی مخالفت میں مکمل طور پر چین کے ساتھ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یامین کی شکایت ہے کہ بھارت نے اُنھیں صدارتی انتخاب میں ہار کے بعد گرفتاری سے نہیں بچایا۔ مگر سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ بھارت مالدیپ کی حکومت کو یامین کو جیل میں نہ ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ یہ یامین ہی تھے جنھوں نے مالدیپ میں چین کو مضبوط کیا تھا۔
2018 میں جب سے ابراہیم صالح مالدیپ کے صدر بنے ہیں، اُن کی پالیسی بھارت نواز کہی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صالح کی پالیسی ’بھارت فرسٹ‘ یعنی سب سے پہلے بھارت کی ہے، مگر بھارت اس کے باوجود اُن پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ پالیسی ‘صرف بھارت ہو جائے۔ ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے صالح کی تقریبِ حلف برداری میں بھی شرکت کی تھی اور دونوں کے درمیان کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
صالح کی طرح زیادہ تر مالدیپی شہری جانتے ہیں کہ قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے وہ بنیادی اشیائے ضرورت کے لیے بھارت پر منحصر ہیں۔ مالدیپ کے لوگ علاج کے لیے بھی بھارت جاتے ہیں اور مالدیپ کے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔ یامین کے دورِ حکومت میں کہا جاتا تھا کہ ان کی پالیسیاں چین نواز تھیں۔
چین بمقابلہ بھارت اور مالدیپ
گذشتہ سال کے اختتام پر صالح حکومت کا چین کے قرض کی ادائیگی پر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ مالدیپ میں چین کے قرضوں کے بارے میں ہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ٹوئٹر پر مالدیپ کے سابق صدر اور پارلیمان کے موجودہ سپیکر محمد نشید اور چین کے مالدیپ میں سفیر چانگ لیچونگ کے درمیان مباحثہ ہوا۔
نشید نے 11 دسمبر 2020 کو ٹویٹ کی کہ مالدیپ نے اگلے دو ہفتوں میں چینی بینکوں کو قرض واپسی کی مد میں بڑی رقم ادا کرنی ہے۔ چینی سفیر نے اُن کا ٹویٹ میں کیا گیا یہ دعویٰ مسترد کر دیا تھا۔ چینی سفیر نے کہا کہ مالدیپ نے قرض ادا کرنا ہے مگر یہ رقم اتنی بڑی نہیں جتنی کہ نشید دعویٰ کر رہے ہیں۔
نشید نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ‘اگلے 14 دنوں میں مالدیپ نے چینی بینک کو ڈیڑھ کروڑ ڈالر کسی بھی صورت میں واپس کرنے ہیں۔ چینی بینکوں نے ہمیں ان قرضوں کے متعلق کوئی رعایت نہیں دی ہے۔ یہ ادائیگی حکومت کی کُل آمدنی کے 50 فیصد کے برابر ہے۔ کووڈ بحران کے دوران مالدیپ کسی طرح سے ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صالح کی حکومت بھارت اور چین کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے اور حکومت کے لیے یہ یقین دہانی کروانا مشکل ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ مگر صالح کی چین کا راستہ روکنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے بھارت کو دفاعی معاہدوں میں تو ترجیح دی ہے مگر چین اب بھی کئی ترقیاتی منصوبوں میں انڈیا سے آگے ہے۔ مگر انڈیا نے بھی مالدیپ کو بھاری مالی امداد فراہم کی ہے۔
سنہ 1988 میں راجیو گاندھی نے فوج بھیج کر مامون عبدالقیوم کی حکومت بچائی تھی اور جب سنہ 2004 میں سونامی آیا تو مدد کے لیے پہنچنے والا سب سے پہلا طیارہ بھارت کا ہی تھا۔ پی پی ایم کا مطالبہ حکومت پر دباؤ بڑھا رہا ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ اسے ملک گیر حمایت نہیں مل پا رہی۔ مالدیپ کی پارلیمان کے سپیکر اور سابق صدر محمد نشید نے الزام لگایا ہے کہ ’انڈیا آؤٹ‘ مہم درحقیقت آئی ایس آئی کے ایک سیل نے بنائی ہے۔
مالدیپ بھارت کے لیے اہم کیوں ہے؟
مالدیپ چین کے لیے اسٹریٹجک اعتبار سے اہم جگہ ہے، جس سمندر میں مالدیپ واقع ہے وہ جگہ بہت اہم ہے۔ یہاں پر چین کی موجودگی بحر ہند میں اس کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سنہ 2016 میں مالدیپ نے ایک چینی کمپنی کو اپنے ایک جزیرے کی 50 سالہ لیز صرف 40 لاکھ ڈالر میں دے دی تھی۔
دوسری جانب مالدیپ بھارت کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ مالدیپ بھارت کے بہت قریب ہے اور اگر چین نے یہاں قدم مضبوط کر لیے تو انڈیا کا گھبرانا قدرتی امر ہے۔ مالدیپ بھارت کے ساحل سے 700 کلومیٹر اور بھارت کی مرکزی سرزمین سے صرف 1200 کلومیٹر دور ہے۔
دوسری طرف چین کے لیے مالدیپ سے بھارت پر نظر رکھنا کافی آسان ہو گا۔ مالدیپ نے چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کر رکھا ہے جو کہ بھارت کے لیے بہت حیران کن تھا۔ چنانچہ اس سے دیکھا جا سکتا ہے کہ مالدیپ بھارت سے کتنا دور اور چین سے کتنا قریب ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی)