کلیم الحفیظ۔دہلی
ہمارے ملک میں سیب کے باغات کشمیر اور ہماچل میں زیادہ ہیں۔دہلی،اترپردیش،بہار سمیت ملک کا بیشتر حصہ سیب کی پیداوار کے لیے مناسب نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ لوگوں نے کوششیں نہ کی ہوں ۔لیکن کوششوں کے ساتھ ساتھ کسی درخت کے لیے مناسب ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اگر بہت کڑی محنت اور مشقت سے دوچار درخت لگابھی لیے تو ان پر آنے والا پھل ان پھلوں کے مقابلے میں بہت ناقص ہوتا ہے جو اپنے مناسب ماحول میں پیدا ہوتے ہیں۔سیب کی طرح دیگر درختوں اور کاشت کی جانے والی اشیاء کے بارے میں بھی آپ کی یہی رائے ہوگی۔میں نے یہ مثال اس لیے دی کہ ملت اسلامیہ ہند کی اصلاح اور سدھار کے لیے کی جانے والی کوششیں ،اپنی جدو جہد اور محنت کے مقابلے بار آور نہیں ہورہی ہیں۔درجنوں تنظیمیں،ہزاروں این جی اوز،ہزاروں مدارس،لاکھوں مساجد اور لاتعدادافراد نیز بے شمار دولت خرچ کیے جانے کے بعد بھی ملت اسلامیہ ہند ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ ملت کی اصلاح کرنے والے تمام افراد و ادارے اگرچہ کرپٹ نہیں ہیں توپھر وہ نتائج کیوں نہیں بر آمد ہورہے ہیں جو ہونے چاہئے۔کوشش کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،ہر دن نئی نئی تنظیمیں اور نئے نئے ادارے وجود میں آرہے ہیں ۔ لیکن ان کے نتائج کما حقہٗ نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ زمین کا زرخیز نہ ہونا ہے ،علامہ اقبالؒ نے سچ کہا تھا:
نہیںہو،ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زخیز ہے ساقی
لیکن آزادی کے 75سال بعد تک زمین نہ نم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور نہ کہیں زرخیزی نظر آرہی ہے۔بلکہ مزید بنجر ہوتی نظر آرہی ہے۔مثلاًاتحاد کا نعرہ لگاتے لگاتے گلا خشک ہوگیا ہے مگر وہی ڈھاک کے تین پات،آج بھی انتشار اسی شان کے ساتھ موجود ہے جس شان کے ساتھ ایک صدی پہلے تھا۔ملی تنظیموں میں اتحاد کی جو کوششیں 8اگست 1963میں ہوئیں تھیں وہی ،8اگست2021میں ہورہی ہیں ۔یعنی 58سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔مسلم مجلس مشاورت،ملی کونسل اور مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے قابل احترام ادارے مسلم اتحاد کے لیے وجود میں آئے ،پھر بھی اتحاد ناپید ہے۔میں سوچتا ہوں جس کام میں صرف جذبات کی قربانی دینا تھی جب وہی ہم نہ دے سکے تو جان و مال کی قربانی کی امید کس طرح کی جاسکتی ہے۔جس اتحاد کے لیے قرآن و احادیث میں واضح احکامات موجود ہیں ،جس کی ضرورت ہر خاص و عام کو ہے اسی اتحاد میں ہم ناکام ہیں،تو کس بنیاد پر کسی بڑے انقلاب کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ امت کا سواد اعظم ابھی کسی انقلابی تحریک کے لیے سازگار نہیں ہے۔مسلم عوام تو کیا ابھی خواص کے کاندھے بھی اس قابل نہیں ہوئے کہ ان پر کوئی بوجھ ڈالا جاسکے۔ابھی ہم میں سے کوئی بھی اپنے جذبات کو اجتماعی مفاد کے لیے پس پشت ڈالنا نہیں چاہتا۔ابھی ہمارے پاس بنیاد کی اینٹیں نہیں ہیں اس لیے کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی۔حال ہی میں ہونے والی اتحاد کانفرنس کا حال یہ تھا کہ ساری مدعوتنظیمیں خود داعی بھی تھیں کیوں کہ وہ کسی ایک کی دعوت پر جمع ہی نہیں ہوسکتی تھیں۔یہ ایسا ہی تھا جیسے گائوں کے لوگ اپنے شادی کارڈ پر داعی کے نیچے لکھ دیتے ہیں ’’آپ اور ہم‘‘۔یہ عجیب سی صورت حال ہے جس نے خیر امت کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے۔پہلے تو انتشار اور افتراق کی باتیں صرف سنتا تھا مگر ادھر چار مہینوں سے جھیل بھی رہا ہوں ۔ باشعور افراد سمجھے جانے والے بھی آپس میں دست بہ گریباں ہیں۔ہمارا کوئی فرد نظم و ضبط میں جیسے رہنا ہی نہیں جانتا۔ہماری اکرام مسلم اور امیر کی اطاعت کی تعلیم کا سارا بھرم اس وقت کھل جاتا ہے جب آپ کسی کی خواہش کے علی الرغم کوئی بات کہہ دیجیے یا فیصلہ کردیجیے۔اسی جھنجھٹ کی وجہ سے باصلاحیت گروہ گوشہ ٔ عافیت میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے اورملت کے بیشتراجتماعی اداروں پر جہلاء کا قبضہ ہے۔انجام کار ساری محنتیں تقریباً رائگاں جارہی ہیں۔
کوئی بھی اجتماعیت جب تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہاں سمع و طاعت کا نظم معیاری پیمانے کا نہ ہو۔امیر یا ذمہ دار کے ہر فیصلے پر نکتہ چینی کرنا،اس میں عیب نکالنا،اس کے خلاف محاذ کھڑا کرنااور اس کی ہوا نکال دیناہمیں کسی بڑی کامیابی کی جانب نہیں لے جاسکتی۔کسی فرد کو ذمہ دار تسلیم کرلینے کے بعد ہمیں اس کی اطاعت کرنا چاہیے ،اگر اس کا فیصلہ اس اجتماعی ادارے کے خلاف محسوس ہو تو صحیح فورم میں اور صحیح وقت پر نیز درست لب ولہجے میں گفتگو کی جاسکتی ہے،کسی ذمہ دار کو متوجہ کردینے اور مشورہ دینے سے زیادہ مامورین کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہے ۔وہ اس فیصلے کے خلاف تبھی جاسکتے ہیں جب کہ وہ اللہ ا ور رسول کی نافرمانی پر مبنی ہو۔اس کے علاوہ کوئی صورت حال ایسی نہیں کہ ہم اس کے فیصلے کی مخالفت کریں اور اجتماعیت کو نقصان پہنچائیں ۔ہمیں یہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ ہر ذمہ دار پر اس کا بڑا ذمہ دار موجود ہے اور سب کے اوپر اللہ نگراں ہے جو سب کا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ملت کے اجتماعی اداروں اور تنظیموں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس کا ہر ممبر اور رکن خود کو مخلص اور دوسرے کو منافق سمجھتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی انقلاب لانا ہے تو پہلے اپنے اندر اجتماعیت کے تقاضوں کے مطابق خوبیاں پیدا کرناہوں گی ۔سب سے پہلی خوبی جو ضروری ہے وہ ادارے میں اعتماد کی فضا کو قائم رکھنا اور مستحکم کرنا ہے۔امیر کو اپنے مامورین پر اعتماد کرنا چاہئے اور مامورین کو اپنے امیرپر۔دوسری چیز ڈسپلن ہے جس پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔ڈسپلن شکنی کسی بھی ادارے کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔اپنے بڑوں کی بات نہ ماننا ہی ڈسپلن شکنی ہے۔ہم خواہ کتنے بھی تعلیم یافتہ ہوں ،ہم نے اس ادارے کے لیے ماضی میںخواہ کتنی قربانیاں دی ہوں ،اگر آج ہمارا ذمہ دار ہماری خواہش کے خلاف کوئی فیصلہ لیتا ہے تو خالد بن ولیدؓ کی طرح بخوشی قبول کرنا چاہئے،ہوسکتا ہے کہ وہ ذمہ دار آپ کو آزمانا چاہتا ہو،ہوسکتا ہے اسے آپ کی رائے کی اہمیت کا بعد میں احساس ہوجائے اور وہ اپنے فیصلے سے رجوع کرلے لیکن جب ہم اپنی خواہش کے خلاف کیے گئے فیصلوں کی مخالفت پر اتر آتے ہیں تو فیصلے کوانا کا مسئلہ بنا دیتے ہیں ۔اس طرح اجتماعیت کا ناقابل نقصان تلافی ہوتا ہے۔جب کہ پہلی صورت میں ہم ناقابل تلافی نقصان سے بآسانی بچ سکتے ہیں ۔
آج کل ایک برائی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر وہ باتیں لکھتے اور ڈالتے ہیں جو ہماری اجتماعیت کو نقصان ہی نہیں بلکہ مذاق بنا دیتی ہیں ۔ایسا وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو اسی تنظیم سے وابستہ ہوتے ہیں ۔خون کی گرمی اور بے صبری انھیں اپنے ذمہ دار کے خلاف فوراً فیس بک کے میدان میں پہنچا دیتی ہے ۔اسے جو بات چار آدمیوں سے کہنا تھی وہی بات وہ ہزاروں افراد سے کہتا ہے ۔اپنی ہی تنظیم کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹیں ڈالنے سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔اس لیے ہمیں اپنے اندر صبر و تحمل کی خوبی بھی پیدا کرنا چاہئے ۔اگر ہم یہ جان لیں کہ بات کہاں ،کب اورکیسے کہنا ہے تو اپنی اجتماعیت کے لیے بہت مفید ہوسکتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنا رد عمل ظاہر کرتے وقت یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ جس عمل کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے کیا اس عمل کی باز پرس خدا کے یہاں ہم سے ہوگی ۔جس عمل کے بارے میں ہم سے حشر میں سوال نہیں ہوگا ہم اس کے لیے اپنی دنیا کیوں خراب کررہے ہیں ۔مثال کے طور پر کسی تنظیم کے امیر یا صدر نے ہمارے مشورے یارائے کے بغیر کسی کو کوئی عہدہ دے دیا تو ہماری ذمہ داری صرف اپنے امیر کو اجتماعی آداب کا خیال رکھتے ہوئے متوجہ کردینے کی ہے ۔امیر محترم سے باقی کا حساب اللہ خود لے لیگا ۔لیکن ہماری حماقتوں سے اجتماعیت کو جو نقصان پہنچے گا اس کا حساب تو ہمیں ہی دینا ہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)