قاسم سید
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے اہم ترین ادارے پارلیمنٹ سے چند گز کے فاصلے پر اور تھانے کے نزدیک جو کچھ ہوا وہ صرف ایک خاص فرقہ کے وجود و بقا پر لگایا گیا سوالیہ نشان ہی نہیں ہے بلکہ بھارت کے مستقبل پر پاگل پن، جنون، لا قانونیت اور انار کی مہیب سایوں کی دستک بھی ہے ۔
حکمراں پارٹی کا لیڈر سپریم کورٹ کا وکیل جنونی بھیڑ کی قیادت کر تا ہے ، یہ بھیڑ خاص فرقہ کو کاٹنے ،بالجبر جے شری رام کہلوانے اور خالق حقیقی اللہ کے حوالے سے بھی ناقابل سماعت و ناقابل برداشت نعرے لگا تی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم روانڈا ہوتے جارہے ہیں ؟کیا انارکیت کی حوصلہ افزائی خطرناک آمریت کی طرف قدم بڑھا رہی ہے ؟کیا یوپی الیکشن کے لیے آگ لگانے کا کھیل ہے ؟کیا دہلی کو پھر فساد کے آگ میں جھونکا جائے گا؟کیا یہ دوارکا کی دوسری کڑی ہے ؟کیونکہ’ دوارکا آندولن‘ کی قیادت بھی بی جے پی کے ہاتھ میں ہے ؟کیا کووڈ پروٹوکول صرف دوسرو ں کے لیے ہے ؟پولیس کی بغیر اجازت ہزاروں لوگوں کا جنتر منتر جیسے ہندوستان کے دل پر اکٹھا ہونا، جنونی پاگل ہجوم کی کھلے عام مسلمانوں کو ہندوستان سے مٹا دینے اور ان کے قتل عام کی کھلے عام دھمکیاں دینا ۔پولیس کا نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنا پھر چوطرفہ دبائو کے بعد کچھ افراد کو گرفتار کرنا، ان کا ریمانڈ نہ لینا ،ان پر معمولی دفعات لگانا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادار ے اتنے مجبور اور بے بس کیوں ہوگئے ہیں؟کیا یہ قانونی ذمہ داری کے بجائے اشاروں پر کام کر رہے ہیں ؟ایسے بہت سارے سوال ہیں جو ڈراونے ہیں ۔سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیا قانون کا یہی رویہ ہوتا ، آخر ہم جا کہا ں رہے ہیں روا داری ، قوت برداشت ،باہمی احترام اور خیر سگالی جیسے الفاظ گالیاں کیوں بن گئے ۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کھلے عام جارحیت اور ملک کی دوسری سب سے بڑی کمیونٹی کو کاٹ دینے اس کے قتل عام کی دھمکیوں پر سیاسی طبقہ کیوں خاموش ہے ؟اسے سانپ کیوں سونگھ گیا ہے ؟محترم وزیر اعظم کا کوئی ٹو ئٹ نہیں آیا ،وزیر داخلہ کی طرف سے ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کا فرمان جاری نہیں ہوا۔ بھاگوت جی کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا جن کو ہندو مسلمانوں کا خون ایک لگتا ہے ان کا ڈی این اے ایک بتاتے ہیں اور کہتے کہ مسلمانوں کے بغیر بھارت ادھورا ہے کیا اس بیان پر ان کا دل بے چین ہوا ؟ حد تو یہ کہ ہر معاملے پر بولنے والا دہلی کا وزیر اعلیٰ چپ ہے اس کے ایم ایل اے گونگے ہو گئے ہیں ، سارے سیاسی سیکولر دم سادھے ہیں ،راہل ہوں کہ پوار ،لالو ہوں کہ ملائم ،نتیش ہوں کہ لیفٹ ،اکھلیش ہوں کہ مایاوتی ،کہیں سے کوئی آواز نہیں ،کوئی مذمتی بیان نہیں ، پیگاسس پر پارلیمنٹ سر پر اٹھا لینے والے بیس کروڑ کی کمیونٹی کو کاٹ دینے اور تہہ تیغ کرنے کی دھمکی پر کیوں چپ ہیں؟کیا وہ اس واقعہ کو اہمیت نہیں دینا چاہتے یا وہ ایسے گھٹیا بازاری مگر خطرناک عزائم والے نعروں سے اتفاق رکھتے ہیں اسی لیے خاموش ہیں ،کیا وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اور دبایا جائے ان کو خوفزدہ رکھا جائے ، ان کے اور کس بل نکالے جائیں ؟ان کا دماغ درست کیا جائے ؟ اور وہ کسی مانگ کے قابل نہ رہیں ۔
اتنا بڑا المیہ ہے خون کے آنسو رونے کا دل چاہتا ہے جب ہندوستانی مسلمان قومی کشمکش کے اس خطر ناک دور میں اپنے وجود اور بقا ء کی جنگ لڑ رہا ہے ہماری نیم مذہبی وہ نیم سیاسی جماعتیں اتحاد ملت کی الجھی ڈور سلجھانے میں لگی ہیں ۔ جنتر منتر پر جب یہ خوف ناک سین پورا ملک دیکھ رہا تھا ہمارے لیڈر سر جوڑ کر اتحاد کی گم شدہ راہیں تلاش کر رہے تھے ۔کیا یہ اچھا ہوتا کہ اسی وقت ہمارے قابل احترام اور بزرگ رہنما پولیس ہیڈ کوارٹر یا وزیر داخلہ کے گھر کے باہر دھرنے پر بیٹھ جاتے کہ جب تک ان کی گرفتاریاں نہیں ہوجاتیں وہاں سے نہیں اٹھیں گے ۔اتحادملت جیسے پاکیزہ مقصد کی طرح اس قدم کا مثبت اور طاقت ور پیغام جاتا ،مسلم نوجوانوں میںجو بے چینی اضطراب اور اپنی قیادت کو لے کر ذہن میں سوال ہیں ان کا جواب بھی مل جاتا اور انہیں مطمئن کر دیتا۔