تحریر :شراون گرگ
گجرات اور دہلی کی اقتدار میں اکیس سال گزارلینے ،اپوزیشن کو اپنی ضرورت کے مطابق پنگو بنادینے اور پارٹی کے بے اطمینانی کو ’ مارگ درشک منڈل ‘میں کامیابی سے روانہ کر دینے کے باوجود نریندر مودی کو اس کانگریس کی جانب سے اپنے لئے اتنے چیلنج کیوں محسوس کرتا چاہئے جس کے وہ مئی 2014 میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے کے پہلے ہی تقریباً ختم کرچکے تھے ؟
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سات سال کے بعد وزیر اعظم کو گاندھی خاندان کے تئیں عدم برداشت کا اظہار اتنی تلخی کے ساتھ کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی! اگر وہ چاہتے تو یہ کام اپنی پہلی مدت کے پہلے بجٹ اجلاس میں ہی کر سکتے تھے!
’ وشو گرو ‘ بننے جارہے بھارت کے وزیر اعظم کو اگر اپنا قیمتی تین گھنٹے کا وقت صرف ایک معصوم اپوزیشن پارٹی کی تاریخ کے حساب -کتاب کےلیے وقف کرنا پڑے تو مانا لیا جانا چاہئے کہ مسئلہ کچھ زیادہ بڑاہے۔
عام لوگوں کی سمجھ سے اس کے پیچھے دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں: یا تو ’پپو‘ کہلائے جانے والے راہل گاندھی کی زبردست تیاری کے ساتھ بجٹ تجاویز پر لوک سبھا میں دی گئی شاندار تقریر نے اقتدار کی قلعہ کو ہلا دی ہیں یا پھر اترپردیش کی سڑکوں پر پرینکا گاندھی کی صورت میں اندرا گاندھی کا جو ’لڑکی ہوں، لڑسکتی ہوں‘ والی جو شکل نمودار ہوئی ہے اسے لے کر برسراقتدار پارٹی بے چین ہیں۔
پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے لے کر تیرہویں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاسوں میں اس وقت کے صدور کے خطابات پر بحث کے جواب میں (شاید) کسی وزیر اعظم نے دونوں ایوانوں کے فورم کا استعمال ایک اپوزیشن پارٹی کی چمڑی کو عوامی طور سے ادھیڑ کر اس کے زخموں کو لہولہان کرنے میں نہیں کیا ہوگا جیسا کہ 7اور8 فروری 2022 کو ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں نے ٹی وی کے پردے پر دیکھا اور سنا ۔
وزیر اعظم کے دفتر میں دن رات جدوجہد کرنے والی ٹیم کی ستائش کی جانی چاہئے کہ انہوں نے اتنی سخت محنت کرکے گوا مکتی -سنگرام کو لے کر نہرو کے ذریعے کہے گئے بیانات لگا کر ’آمرانہ‘ کانگریسی حکومتوں کےذریعہ وقتاً فوقتاً برخواست کی گئی اپوزیشن ریاستی حکومتوں کی لسٹ ، ان کے لیڈروں کے ذریعہ ذلیل کے گئے لوگوں کےنام اور ان تمام واقعات کےتصدیق شدہ بیورو تیار کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی جنہیں ہتھیار بنا کر وزیر اعظم پارلیمنٹ کےدونوںایوانوںمیں اپنی فصیح و بلیغ تقریر کرنے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔
حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی نے اس سے پہلے کبھی ’شیم شیم‘ کا اتنا تلفظ نہیں کیا ہوگا اور اس طرح میزیں نہیں ماری ہوں گی۔!
وزیر اعظم نے اپنی دونوں تقریروں میں جو کہا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اٹل بہاری واجپئی سمیت وہ تمام شخصیات پارلیمانی تاریخ کے کٹہرے میں پہنچ جائیں گی جنہوں نے اپوزیشن پارٹی یا لیڈر کےذریعے اپنی سرکار گرا دیے جانے پر بھی اس طرح کی تقریر پارلیمنٹ نہیں کی۔ جن اٹل جی کا ذکر وزیر اعظم نے ان کی تخلیق کے ذریعہ کیا ۔
وزیر اعظم نے جو کچھ کہا اسے دہرانے سے زیادہ یہ سمجھنا زیادہ اہم ہو سکتا ہے کہ مودی کس طبقہ یا لوگوں کے گروپ کو مخاطب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! کیا وزیر اعظم اپنی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کو کانگریس کی ’تاریک تاریخ‘ سے نہرو سے لے کر آج تک (جس میں 1975 کی جمہوریت کا گلا گھونٹنا بھی شامل ہے) سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ یا وہ غیر کانگریسی اپوزیشن کو خبردار کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جو کانگریس کو محور بنا کر 2024 میں مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کی تیاری کر رہی ہے؟ یا وہ ’گاندھی خاندان‘ کو اس کے ماضی کے لیے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے؟
وزیر اعظم کو صرف کانگریس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کیونکہ اگر اندرا گاندھی نے 1975 میں جمہوریت کا گلا گھونٹ نہ دیا ہوتا تو نہ ہی آمرانہ حکمرانوں کو معلوم ہوتا کہ عوام کی خاموشی بھی حکومت کو بدل سکتی ہے اور نہ ہی ایک لمحہ ایسا ہوتا۔ مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کی ایسی مشترکہ حکومت کے قیام کے لیے جس میں جن سنگھ (موجودہ بی جے پی) نے بھی حصہ لیا۔ اس حکومت میں اٹل جی وزیر خارجہ تھے اور اڈوانی اطلاعات و نشریات کے وزیر تھے۔
اس بات کی چھان بین کی جا سکتی ہے کہ آزادی کے بعد کی کانگریس کے ’کالے‘ سیاسی ماضی کی اتنی تحقیقی معلومات جنوبی بھارت (کیرل،تمل ناڈو، کرناٹک، اڑیسہ، تلنگانہ، پڈوچیری وغیرہ)، شمال مشرقی ریاستوں (آسام ، میگھالیہ، منی پور، سکم، ناگالینڈ، اروناچل، میزورم وغیرہ) اور کشمیر-لداخ وغیرہ میں رہنے والے کروڑوں کی آبادی صحیح طور پر سنا، سمجھا اور قبول کر پائے ہوگی ؟
اگر نہیں تو کیوں؟ مودی تو ملک کی 28 ریاستوں اور آٹھ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں رہنے والے تمام ایک سو تیس کروڑ شہریوں کے وزیر اعظم ہیں۔ تو کیا ان ریاستوں کے لوگوں کو اپنے وزیر اعظم کی تقریروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی؟
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے خطاب کے مرکز میں وہ ریاستیں ہوں گی جہاں پہلے مرحلے کی پولنگ شروع ہو چکی ہے، وہ ریاستیں جہاں اس سال کے آخر میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اگلی بجٹ تقریر سے پہلے بی جے پی۔ حکمرانی والی ریاستیں جہاں ڈبل انجن والی حکومتوں اور پارٹی اور سنگھ کے لاکھوں کارکنان کے خلاف حکومت مخالف لہر ہے جو کووڈ کے سانحہ سے دوچار لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔
وزیر اعظم کی تقاریر کی یہ خصوصیت سمجھی جا سکتی ہے کہ راہل گاندھی کی جانب سے بجٹ اور ’دو ہندوستان‘ پر پوچھے گئے ناگوار سوالات کے تسلی بخش جواب دینے کے بجائے وہ اپنی طرف سے کانگریس کے خلاف ہی اتنے سوال اٹھا رہے تھے۔
کانگریس کے مایوس کن اور ملک دشمن ماضی اور اس کی تنظیم پر ایک ہی خاندان کے غلبہ کے انکشاف کے بعد بھی اگر عوام وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم کے حق میں ووٹ کرنا بند نہیں کرتے ہیں تو پھر مان لیا جانا چاہئے کہ بی جے پی اورسنگھ کا اصل مسئلہ کانگریس اور ’پریوار‘ نہیں بلکہ ملک کے عوام ہیں۔ اس صورتحال میں تو وزیر اعظم کو علاج عوام کا ہی کرنا پڑےگا ۔
(بشکریہ : ستیہ ہندی )