تحریر: مسعودجاوید
اترپردیش کے علی گڑھ شہر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے لیکن اس کے گردونواح میں ناخواندہ مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے ! تقریباً نصف آبادی ناخواندہ ہے۔
24 مئی 1875 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا یعنی تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ملک اور بیرون ملک کے طلباء و طالبات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علم و ہنر کے چشمے فیضیاب کر رہی ہے لیکن اترپردیش کے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں ناکام کیوں رہی !
یہاں کی شرح ناخواندگی نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ تکلیف دہ بھی ہے اس لئے کہ اترپردیش بالخصوص مغربی اترپردیش میں مسلم زمینداروں کی بڑی تعداد ہے شمالی ہند کی دوسری ریاستوں کی بنسبت یہاں کے لوگ متمول ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تنگدستی کی وجہ سے تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔
یہ تو ہوئی عصری تعلیم کی بات لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دینی تعلیم کے سب سے بڑے ادارے اسی مغربی اترپردیش میں ہیں۔
30 مئی 1866 کو دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا ۔ اس کے علاوہ مظاہر علوم سہارنپور اور ندوة العلماء لکھنؤ کے علاوہ سو سے زائد چھوٹے بڑے دینی مدارس اسی اترپردیش میں ہونے کے باوجود میرٹھ مظفر نگر دیوبند سہارنپور سے پچاس پچھتر کیلومیٹر کے گردونواح میں بہت سے ایسے گاؤں ہیں جہاں کے مسلمانوں سے ان کے نام چھین لئے جائیں تو تمیز کرنا مشکل ہوگا کہ وہ مسلمان ہیں بھی یا نہیں۔
تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ نے ایمان و کفر کے مرکب ایسے ہی نام کے مسلمانوں کا علاقہ میوات کو پایا تھا کہ لوگ نماز روزہ تو دور کلمہ اور کفن دفن تک نہیں جانتے تھے اس لیے 1926 میں اس جماعت کو قائم کیا اور گاؤں گاؤں بستی بستی قیام کر کے ان کو توحید اور دین سکھایا لیکن افسوس کاندھلہ اور مظفر نگر کے گردونواح میں ایمان اور کفر کے مابین زندگی گزارنے والوں کے اسلام کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے ! ان دیہاتوں میں مسلمانوں کی حالت یہی بتائی جاتی ہے کہ جاٹوں جیسے ان کا کھانا پینا اور پوشاک ہے خواتین بے پردہ اور بہت سے علاقوں میں کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔
مسلمانوں میں طبقاتی تفریق اگر واقعی نہیں ہے اور ذات پات اونچ نیچ نہیں ہے تو کھیتوں میں کام کرنے والی مسلم خواتین کو دیکھ کر شرفاء مسلمانوں کی دینی حمیت اور ملی غیرت کیوں نہیں جاگتی !