وزیراعظم مودی کے امریکی دورے کو اس بار وہاں کے میڈیا نے خاص توجہ دی ہے صدر بائیڈن اس دورہ کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں یہ سب سے دلچسپ سوال وہاں کے اشرافیہ میں چھایا ہے ہر بڑے اخبار نے اس کا جایزہ لیا ہے بی بی سی نے واشنگٹن پوسٹ کے تجزیے پر نظر ڈالی ہے ۔اس کا لب لباب یہ ہے کہ دراصل دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اس نظریہ ضرورت کے تحت وہ بھارت کو ساتھ لے کر چین کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا، ’’صدر بائیڈن نے سوالات اٹھنے کے باوجود ہندوستان کی جمہوریت کا دفاع کیا ہے۔‘‘ بائیڈن نے کہا کہ ہندوستان اور امریکہ دونوں ہی جمہوریت ہیں، اس لیے دونوں کے تعلقات گہرے ہیں، جب کہ چین کے ساتھ ایسا نہیں ہے، پھر وہاں جمہوریت نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ دونوں ممالک کی جمہوریتوں میں تنوع، کشادگی اور رواداری شامل ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ بائیڈن کے دور حکومت میں دنیا کے صرف تین ممالک کے وزیراعظم یا صدر کو سرکاری دورے پر بلایا گیا تھا۔ اس سے قبل بائیڈن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کو سرکاری دورے پر مدعو کیا تھا۔ مودی سرکاری دورے پر تیسرے مہمان بنے۔ مودی نے اس سے قبل 2016 میں بھی امریکی کانگریس سے خطاب کیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا، ’’جب مودی جمعرات کو امریکی کانگریس سے خطاب کر رہے تھے تو امریکی قانون سازوں نے کئی بار کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اسی دوران مہمانوں کی گیلری سےمودی-مودی کے نعرے لگ رہے تھے۔ مودی کے مداحوں کی بڑی تعداد وائٹ ہاؤس کے باہر ان کے استقبال کے لیے کھڑی تھی۔ بائیڈن نے کہا کہ دو عظیم ملک، دو مضبوط دوست اور دو طاقتور ملک اکیسویں صدی کی سمت کا تعین کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان کچھ اہم معاہدے بھی ہوئے جن کے تحت امریکہ بھارت میں جیٹ انجن تیار کرے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ بنگلور اور احمد آباد میں نئے قونصل خانے کھولے گا۔
امریکی نیوز ویب سائٹ Axios نے بھی صدر بائیڈن کے ساتھ پی ایم مودی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں رپورٹر کے سوالوں کو اہم مقام دیا ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، ’’ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی صحافیوں سے شاذ و نادر ہی سوالات لیتے ہیں، لیکن ایسا جمعرات کو ہوا۔ بائیڈن مودی کو سرکاری دورے پر مدعو کر کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ چین کو کنٹرول کیا جا سکے۔ لیکن مودی کے اس دورے میں بھارت میں اقلیتوں کے حقوق اور جمہوریت کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔