ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کی جائے، اگر کسی بھی شہری کے ساتھ کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مظلوم کو اس کے ساتھ ہوئی ناانصافی اور ظلم کا معقول بدلہ و معاوضہ دیا جائے، ظالم کو اس کے ظلم یا قانون کو ہاتھ میں لینے کی واجب سزا دی جائے۔ آزاد ہندوستان کا جو خواب ہمارے آباواجداد نے دیکھا تھا وہ ایک ایسے ملک و سماج کا تھا جہاں ذات پات، رنگ و نسل، مذہب یا تہذیب، اور رسم و رواج کی بنیاد پر کسی بھی شخص یا افراد کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاو نہیں کیا جائے گا، ایک آزاد خودمختار سماجی،سیکولر جمہوریت کا قیام اسی غرض سے کیا گیا تھا کہ ہر شہری کے ساتھ یکساں انصاف ہو۔ حالیہ برسوں میں ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کے حادثات جس طرح سےایک عام سی بات بن گئے ہیں، ہمارا ملک ایک سیکولرعوامی جمہوریت ہے اور اس جمہوری ملک کی ایک بڑی اقلیت میں نیز صدیوں سے استحصال کا شکار دبے کچلے طبقے کے اندر خوف و ہراس کا ماحول ہے، ان حادثات کی بنیادی وجہمن گھڑت جھوٹی خبریں، افواہیں، نفرت آمیز تقریریں اہم وجہ ہیں۔
ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کے جرائم پر ہمارے ملک میں کوئی مفصل اور مخصوص قانون موجود نہیں ہے، ایسے حادثات کی صورت میں ہمارے ملک میں رائج انڈین پینل کوڈ کی دفعات کا ہی عموما استعمال ہوتا ہے، لنچنگ یا ہجومی تشدد کا لفظ انڈین پینل کوڈ یا کسی دیگر قانون میں استعمال نہیں ہوا ہے، قتل کے الزام میں آئی پی سی کی دفعہ 302، غیر عمدا قتل کے الزام میں دفعہ 304، قتل کی کوشش کے الزام میں دفعہ 307، غیر قانونی اسمبلی یا ہجوم کے الزام میں دفعہ 141 و دفعہ 149، چوٹ یا سنگین چوٹ پہنچانے کی صورت میں دفعہ 323 اور 325، کرمنل سازش کے الزام میں دفعہ 120B، دنگا فساد بھڑکانے کے الزام میں دفعہ 147، جب کہ خطرناک ہتھیار کے ساتھ دنگا بھڑکانے کے الزام میں دفعہ 148 کے تحت ایف آئی آر، ایک مقصد کے ساتھ متحد ہونے پر دفعہ 34 کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں ہونے والے ہجومی تشدد کے واقعات میں ہونے والے لگاتار اضافے نے ایک نئے قانون کی ضرورت پر بھی بحث کی ہے، بیشک کسی بھی نئے قانون کے بنادینے سے یہ مسئلہ فورا ختم تو نہیں ہوسکتا ہے لیکن نئے قانون کے ذریعے ایسی شقات و تجاویز کو شامل کرنا ضروری ہے جس سے ملزمین کے اندر قانون کا خوف نیز قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں خصوصا پولیس محکمے کی جواب دہی و انکے اندراحساس ذمہ داری پیدا ہو سکے، اگر ہم ماضی میں ہوئے حادثات پر نظر ڈالیں تو مقدمات میں نا تو مجرمین کو عدالت سے سزا مل سکی اور نا ہی ان واقعات میں کوئی خاص کمی واقع ہوئی ہے، پولیس کی تفتیش نیز مقدمات کی سنوائی میں سرکاری وکیل کا رول بھی سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے۔
2018 میںسپریم کورٹ آف انڈیا کی تین ججوں کی بینچ نے تحسین پونہ والا کی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا نے ماب لنچنگ کو موبوکریسی کہا تھا، تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ماب لنچنگ کے حادثات کی روک تھام کے لئے مرکزی و صوبائی حکومتوں کے لئے رہنما اصول یا گائیڈ لائن پیش کی تھیں، خاص طور سے پولیس محکمے کی جوابدہی اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی تھی، وہیں مروجہ و مستعمل قوانین کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد ایک مخصوص و مفصل قانون بنانے کی ضرورت پر پرزور تاکید کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈیا کا تاریخی فیصلہ 17 جولائی 2018 کو سنایا تھا، آج اس فیصلے کو تقریبا تین سال ہوچکے ہیں، لیکن مرکزی حکومت کے ساتھ ہی اکثر و بیشتر صوبائی حکومتوں نے بھی ان رہنما اصولوں کے بنیاد پر کوئی پیش قدمی نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ماب لنچنگ کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
لنچنگ کا لفظ یا اصطلاح قانونی حلقے میں پہلی بار 29 دسمبر 2017 میں استعمال ہوا جب راجیہ سبھا میں ملک کے معروف وکیل و راجیہ سبھا کے ممبر مسٹر کے ٹی ایس تلسی نے “دی پروٹیکشن فرام لنچنگ بل، 2017” پیش کیا، اس بل میں پولیس و ضلع انتظامیہ کی ذمہ داریوں، ڈیوٹی و ذمہ داری میں ناکامی کی صورت میں قانونی سزا، لنچنگ کی تعریف، لنچنگ کی سازش و تیاری کی سزا،لنچنگ کی سزا، جھوٹی افواہوں کو پھیلانے کی سزا، لنچنگ کے مقدمات میں پولیس تفتیش کے لئے سینئر افسر کا تعین، متاثرین کو اپنی پسند کا وکیل استغاثہ منتخب کرنے کا حق، اسپیشل سیشن کورٹ میں تیز رفتار سماعت، متاثرین کو حقوق و گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ متاثرین کیلئے بازآبادکاری و معاوضے پر اہم تجویزات پیش کی گئی تھیں۔ 2017 میں پیش کئے گئے اس پارلیمانی بل کے ذریعے ملک میں ایک مضبوط اور سخت قانون پیش کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی لیکن تقریبا چار سال گزرنے کے بعد بھی نا تو اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور نا ہی اس پر کوئی بحث ہوئی ہے۔
2018 میں منی پور حکومت نے سپریم کورٹ کے رہنما اصولوں کی روشنی میں لنچنگ پر اسپیشل قانون پاس کیا جس کے مطابق “کوئی بھی تشدد کاعمل یا سلسلہ وار متعدد تشدد کےعمل، ان کو کرنے کے لئے آمادہ کرنے یا مدد کرنے کا عمل، چاہے وہ اچانک کیا گیا ہو یا پہلے سے تیاری اور پلاننگ کے ساتھ، وہ ہجومی مذہب، ذات پات، نسل، جائے پیدائش، کھانے پینے کے رواج، نفسیاتی خواہشات کے تعین کی بنیاد پر، سیاسی وابستگی یا ان سے متعلق کسی بھی بنیاد پرہو” ، قانون کے مطابق لنچنگ کی روک تھام کرنا ہر ضلع میں نوڈل پولیس آفیسر کی ذمہ داری ہوگی جس میں ناکامی کی صورت میں نوڈل آفیسر کو ایک سے تین سال تک کی قید کی سزا کے ساتھ پچاس ہزار روپے بطور جرمانہ عائد کیا جائے گا، اس قانون میں درج سزا کی تجویزات کے ساتھ ساتھ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 153A کو بھی ایف آئی آر میں شامل کیا جائے گا، لنچنگ کے جرم میں عمر قید تک کی سزا کے ساتھ معاوضے کی شقات بھی شامل کی گئی ہیں۔ 2019 میں راجستھان کی کانگریس حکومت نے بھی لنچنگ پر ایک بل پیش کیا لیکن سپریم کورٹ کی گائڈلائن کے کچھ ہی اصول شامل کئے گئے جو کہ قانون کو ایک رسم کے طور پر ہی پیش کرنے کی کوشش لگتی ہے۔
ممتا بنرجی حکومت نے 2019 میں صوبائی اسمبلی ہاوس کے ذریعے “دی ویسٹ بنگال (پریوینشن آف لنچنگ) بل 2019 “ کو پاس کیا، اس قانون کے تحت کسی بھی فرد یا اس کی کمیونٹی کے خلاف ڈر و خوف کا ماحول بنانا، کسی بھی طرح کا بائیکاٹ کرنا، گھر یا زمین چھوڑنے پر مجبور کرنا،
کوئی بھی تشدد کاعمل یا سلسلہ وار متعدد تشدد کےعمل، ان کو کرنے کے لئے آمادہ کرنے یا مدد کرنے کا عمل، چاہے وہ اچانک کیا گیا ہو یا پہلے سے تیاری اور پلاننگ کے ساتھ، وہ ہجومی مذہب، ذات پات، نسل، جائے پیدائش، کھانے پینے کے رواج، نفسیاتی خواہشات کے تعین کی بنیاد پر، سیاسی وابستگی یا ان سے متعلق کسی بھی بنیاد پرکرنا، ایک جرم ہوگا جس کی سزا عمر قید تک متعین کی گئی ہے، قانون میں پولیس افسران کے ساتھ ساتھ ضلع انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جوابدہی بھی طے کی گئی ہے۔
اترپردیش میں صوبے کے لا کمیشن چیئرمین جسٹس اے این متل نے 2019 میں 128 صفحات پر مبنی اپنی رپورٹ کے ساتھ مجوزہ بل “ اترپردیش کمبیٹنگ آف ماب لنچنگ بل” بھی یوپی حکومت کے سامنے پیش کیا، صرف 2019 میں ہی اترپردیش میں لنچنگ کے پچاس سے زائد معاملات رپورٹ ہوئے جن میں 11 افراد کی جان گئی، تاہم ابھی تک یوپی میں یہ بل پیش نہیں ہوسکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لنچنگ کے واقعات گنتی یا اعدادوشمار میں کم لگتے ہیں لیکن اس کا اثر ایک پورے طبقے کو ڈرو خوف میں مبتلا کردیتا ہے، اگر اقلیتی طبقے کا ایک واحد فرد بھی اپنی جان یا آزادی کے ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے گھر سے نکلنے، دوکان کھولنے، بازار جانے یا سفر کرنے میں اپنی جان و مال کا خوف محسوس کرے تو یہ حکومت اور پولیس کی ناکامی ہے اور لنچنگ کے حادثات میں تو پولیس کھڑی خاموش تماش بین رہی ہے اور سیاسی وزرا و رہنما ملزمین کے استقبال میں پھول مالا کے ساتھ منتظر، یہ مروجہ قوانین کی نااہلی و جوابدہی کی کمی کا ثبوت ہیں۔