تحریر :زبیر احمد
افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک جس کے پاس جدید ترین فوج، جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین فضائیہ ہے وہ طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا؟ امریکی دانشور اس بات پر حیران ہیں کہ امریکہ دورِ جدید میں جنگیں کیوں نہیں جیت پاتا؟
سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی حصے داری کا خاتمہ ہو جائے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین اور روس نے بڑھ کر طالبان کے ساتھ رشتہ قائم کیا ہے؟
امریکہ کے دفاع میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر ٹام کیسڈی کہتے ہیں: ’امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ کر مارا ڈالا، القاعدہ کو تباہ کر دیا، اس کے کئی سرکردہ رہنما یا تو مارے گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔
’افغانستان میں انفراسٹرکچر کو فروغ ملا، خواتین کی تعلیم کے لیے سکول کھولے گئے۔ ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آیا۔ عراق میں نام نہاد جنگجو گروپ دولت اسلامیہ جیسے خطرناک دہشت گرد تباہ ہوئے، لیبیا میں صدام حسین اور کرنل قذافی جیسے آمروں کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ کامیابیاں کیا کم ہیں؟‘
1945 کے بعد امریکہ کی پانچ بڑی جنگیں
لیکن امریکہ میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ امریکہ افغانستان، شام، عراق اور یمن میں دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہا ہے۔ طالبان کی جنگ میں فتح اور اقتدار میں واپسی امریکہ کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو امریکہ سنہ 1945 تک تقریباً تمام بڑی جنگیں جیت چکا تھا، لیکن 1945 کے بعد سے امریکہ نے بہت کم جنگوں میں ایک معنی خیز فتح حاصل کی ہے۔
امریکہ نے 1945 کے بعد سے پانچ بڑی جنگیں لڑی ہیں جن میں کوریا، ویت نام، خلیجی جنگ، عراق اور افغانستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند معمولی جنگیں بھی ہیں جن میں صومالیہ، یمن اور لیبیا کی جنگیں شامل ہیں۔ سنہ 1991 کی خلیجی جنگ کے علاوہ، جسے ایک کامیابی سمجھا جا سکتا ہے، امریکہ دیگر تمام جنگیں ہار چکا ہے۔
کارٹر ملکاسیئن نے کئی سال افغانستان میں امریکی انتظامیہ کے لیے کام کیا ہے اور اس کی بنیاد پر انھوں نے ’دی امریکن وار ان افغانستان – اے ہسٹری‘ نامی کتاب لکھی جو یکم جولائی کو شائع ہوئی۔
آخر امریکہ جنگ کیوں ہارتا ہے؟
اس حالیہ کتاب میں انھوں نے ایک دلچسپ پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1945 سے پہلے لڑی جانے والی جنگیں ممالک کے درمیان لڑی گئیں اور امریکہ نے ہمیشہ وہ جنگیں جیتیں۔ ‘لیکن اسے ان تمام نئے زمانے کی جنگوں میں ناکامی ہوئی ہے جہاں جنگجو مقامی باغی ہیں، فوجی طاقت میں کمزور لیکن زیادہ حوصلہ مند اور پرعزم ہیں۔
شکست ایک لگ چیز ہے لیکن جس طرح سے امریکی فوجی بن غازی، صومالیہ، سائیگون اور اب کابل سے بے بسی کی حالت میں واپس آئے ہیں اس نے امریکی شکست کو مزید شرمناک بنا دیا ہے۔ آخر امریکہ جنگ کیوں ہار جاتا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مقامی ثقافت کو نہ سمجھنا اہم ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر اور سوارتھمور کالج کے پروفیسر ڈومینک ٹیرنی نے بی بی سی کو ایک ای میل انٹرویو میں کہا کہ ’افغانستان، عراق، شام اور لیبیا جیسی جنگیں بڑی خانہ جنگیاں ہیں۔ طاقت یا مادی طاقت ان جنگوں میں فتح کی ضمانت نہیں دیتی ہے۔ ’خاص طور پر جب امریکہ جیسا ملک مقامی ثقافت سے ناواقف ہو اور ایسے دشمن سے لڑے جو زیادہ باخبر اور زیادہ پرعزم ہو۔‘
میدان جنگ میں امریکہ کی حالت
ڈومینک ٹیرنی نے اپنی کتاب ‘دی رائٹ ٹو لوز اے وار، امریکہ ان این ایج آف ان ونیبل کنفلکٹس میں تسلیم کیا ہے کہ امریکہ حالیہ جنگیں ہار چکا ہے۔
دعوت فکر دینے والی اس کتاب میں ڈومینک ٹیرنی نے لکھا ہے کہ کس طرح امریکہ نے مہلک گوریلا جنگ کے اس نئے دور سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سخت جدوجہد کی ہے۔
نتیجتاً، زیادہ تر بڑی امریکی جنگوں کا انجام فوجی ناکامی رہا ہے۔ اور میدان جنگ میں تباہی کے وقت امریکہ دلدل سے نکلنے سے قاصر رہتا ہے، جس کے ہزاروں امریکی فوجیوں اور ہمارے اتحادیوں کے لیے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔
صدر جارج بش کی تقریر لکھنے والے ڈیوڈ فروم نے پہلے عراق میں امریکی جنگ کی حمایت کی تھی لیکن اب ان کی رائے بدل گئی ہے۔ وہ ایک مضمون میں کہتے ہیں: ‘ہم نے سوچا تھا کہ ہم عراق کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم نہیں تھے۔ ہم لاعلم اور متکبر تھے اور ہم انسانی مصائب کے ذمہ دار بن گئے جو کسی کے لیے اچھا نہیں تھا، نہ امریکیوں کے لیے اور نہ ہی ان کے لیے اور نہ ہی اس علاقے کے لیے۔
امریکی شکست کی بڑی وجہ
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر پروفیسر آفتاب کمال پاشا بھی امریکی شکست کی بڑی وجہ مقامی ثقافت کے بارے میں مضبوط فہم کا فقدان سمجھتے ہیں۔
بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’امریکی دوسرے ممالک کی ثقافت کو نہیں سمجھتے اور قریب سے سمجھنا بھی نہیں چاہتے۔ ڈک چینی (امریکہ کے سابق نائب صدر)، ڈونلڈ رمز فیلڈ (امریکہ کے سابق وزیر دفاع) کھلے عام کہتے تھے کہ جب امریکی افواج بغداد میں داخل ہوں گی تو عراق کی شیعہ برادری صدام حسین کے خلاف بغاوت کر دے گی اور امریکی فوجیوں کا پھولوں کے ہاروں سے استقبال کرے گی۔ کہاں ہوا استقبال، کہاں ہوئی بغاوت؟ یہ عراق کے اندرونی معاملات اور وہاں کے سماج کے بارے میں ان کی بڑی غلط فہمی تھی۔
پروفیسر پاشا افغانستان میں امریکہ کی شکست کی ایک اور مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’افغانستان میں ان کا سامنا مشکل علاقوں سے ہوا، ان وادیوں، پہاڑوں اور غاروں سے جہاں طالبان کے اڈے تھے اور ان سے طالبان پوری طرح شناسا تھے لیکن امریکی فوجی نہیں۔’جب بھی امریکی فوجیوں کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا تو وہ علاقے میں شدید بمباری کرتے اور اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پورے علاقے کو تباہ کر دیتے تھے۔‘
قوم پرستی، نظریات اور مذہبی جنگ
ویت نام کی جنگ میں شمالی ویت نام کی حکومت نے ایک کمیونسٹ گوریلا فورس قائم کی جسے ویت کونگ کہا جاتا تھا جس کے کمیونسٹ نظریات اور قوم پرستی کے عزائم امریکی فوجیوں پر بھاری پڑے کیونکہ امریکی فوجی اکثر سوچتے تھے کہ وہ اپنے ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور کس کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔
موت کی پرواہ نہیں کرنے والے اور اپنے نظریات پر جان دینے والے آخر کار امریکیوں کو بھگانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی حال طالبان کا بھی ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق طالبان اسے نہ صرف ملک کی جنگ بلکہ ایک مذہبی جنگ بنانے میں کامیاب رہے۔
پروفیسر ڈومینک ٹیرنی کہتے ہیں: ’طالبان کا ایک مقصد تھا جو مذہبی، نسلی اور قوم پرست اپیلوں کا امتزاج تھا۔ اس کے برعکس افغان حکومت جمہوریت یا انسانی حقوق یا قوم پرست اپیل پر مبنی مثبت پیغام کا خاکہ پیش کرنے میں ناکام رہی۔‘
مصنف کارٹر ملکاسیئن کہتے ہیں: ’طالبان مذہب سے کچھ اس طرح متاثر تھے کہ اس بات نے انھیں جنگ میں طاقتور بنایا۔ انھوں نے اپنے آپ کو اسلام کے نمائندے کے طور پر پیش کیا اور غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کا مطالبہ کیا۔ ان خیالات نے عام افغانوں کو متاثر کیا۔
’عام افغان بنیاد پرست نہیں ہیں، لیکن مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ سرکاری فوجیوں کے لیے ایسی کوئی ترغیب نہیں تھی۔ وہ بغیر کسی مقصد کے لڑ رہے تھے۔‘
طالبان کا جہاد کے لیے پرعزم ہونا
کارٹر ملکاسین کے مطابق ان افغانوں کی تعداد جو طالبان کے لیے مرنے اور مارنے کے لیے تیار تھے زیادہ تھی۔ طالبان کو میدان جنگ میں اس سے فائدہ ہوا۔ کارٹر نے افغانستان میں کافی وقت گزارا ہے۔ اس دوران وہ طالبان اور ان کے حامیوں سے بھی ملے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں ایک طالبان رہنما کا بیان ریکارڈ کیا ہے: ‘میں ہر روز ایسے واقعات کے بارے میں سنتا ہوں جہاں پولیس یا فوج کے اہلکار مارے جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ طالبان سے لڑنے کے لیے پرعزم ہیں یا نہیں۔
’بہت سے پولیس اہلکار اور فوجی صرف ڈالر کے لیے لڑتے ہیں، انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا ہے، لیکن ان میں حکومت کا دفاع کرنے کا جذبہ نہیں ہے جبکہ طالبان جہاد کے لیے پرعزم ہیں۔‘
پروفیسر پاشا کے مطابق جب طالبان میدان میں لڑنے آتے تھے تو وہ سر پر کفن باندھ کر آتے تھے۔ اس کے برخلاف امریکی اور افغان سرکاری افواج کی ترجیح جان بچانا تھی۔
‘امریکی فوجی ایک ایسے ملک کے لیے لڑ رہے تھے جو ان کا نہیں تھا۔ ان کا عزم طالبان کی طرح نہیں تھا۔ طالبان اپنے ملک کے لیے لڑ رہے تھے اور انھوں نے اسے مذہبی جنگ میں تبدیل کر دیا جس سے عام افغانوں میں ان کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی۔‘
امریکہ نے ان شکستوں سے کیا سبق سیکھا؟
امریکی قیادت نے سائیگون، ویت نام سے نہیں سیکھا۔ سنہ 1993 میں امریکہ پر صومالیہ کے اندر فوجی کارروائی کے لیے وہی پرانی غلطی دہرانے کا الزام لگا۔
موغادیشو کی سڑکوں پر مردہ امریکی فوجیوں کو گھسیٹنے والے مناظر کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔ امریکی یہ منظر دیکھ کر غصے میں تھے۔ بہت سے لوگ جذباتی ہو گئے۔ یہ افریقہ میں امریکہ کے لیے ایک اہم موڑ تھا۔
اکتوبر سنہ 1993 میں امریکی فوجیوں نے صومالی دارالحکومت موغادیشو میں تباہ کن چھاپہ مارا۔ ان کا مقصد طاقتور صومالی وار لارڈ جنرل محمد فرح اور ان کے اہم اتحادیوں کو پکڑنا تھا لیکن امریکی افواج کو محمد فرح کی ملیشیا کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
دو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مارے گئے۔ 18 امریکی اور دو اقوام متحدہ کے فوجی ہلاک ہوئے۔ اس وقت امریکہ صومالیہ میں خانہ جنگی اور قحط کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کی قیادت کر رہا تھا۔
چھ ماہ کے اندر اندر امریکہ نے صومالیہ سے اپنی افواج کو واپس بلا لیا اور اس مشن کی ناکامی نے امریکہ کو افریقی بحرانوں میں مداخلت سے محتاط کر دیا۔
پروفیسر ڈومینک ٹیرنی کہتے ہیں کہ سیکھنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں۔ ان کے مطابق، سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ‘پہلی جنگ ختم ہونے سے پہلے دوسری جنگ شروع نہ کریں۔ اخلاقیات اور مذہبی جوش کی وجہ سے جنگ شروع نہ کریں اور اگر بات کرنے کا موقع ملے تو انکار نہ کریں۔
’اہداف مقرر کریں جو آپ حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جنگیں شروع کرنے کے بجائے ختم کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔‘
کیا امریکہ اپنی فوج دوبارہ افغانستان بھیجے گا؟
پروفیسر پاشا کے مطابق امریکہ ایسی صورتحال میں براہ راست مداخلت نہیں کرے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ پاکستان سے دور ہو گیا ہے۔ امریکہ پاکستان سے خوش نہیں ہے۔ اگرچہ امریکہ نے طالبان معاہدے میں پاکستان کی مدد لی تھی اور طالبان کے امریکی انخلا کے دوران حملے نہ کرنے کی ضمانت پاکستان سے لی تھی لیکن اب جبکہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے اسے آنے والے دنوں میں پاکستان کی ضرورت محسوس ہو گی۔
’امریکہ کو اب سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف جیسے رہنما کی ضرورت ہو گی جنھوں نے سنہ 2001 میں صدر بش کی اپیل پر افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘وزیر اعظم عمران خان پر دباؤ بڑھے گا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اقتدار میں اپنی مدت پوری کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔‘
پروفیسر ڈومینک ٹیرنی کہتے ہیں: ‘صدر جو بائیڈن افغانستان میں ایک اور بڑی جنگ کے سخت خلاف ہیں، لیکن اگر کوئی انسانی بحران ہو، دوسری دہشت گرد تنظیموں کا عروج ہو یا اس سے بڑھ کر افغانستان بڑے ممالک کے درمیان پراکسی جنگ کا ٹھکانہ بن جائے، تو امریکہ مداخلت ضرور کر سکتا ہے۔‘
(بشکریہ : بی بی سی )