نائب صدر جگدیپ دھنکھر نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے اس حکم پر سخت نکتہ چینی کی ہے جس میں صدر کو گورنروں کی طرف سے غور کے لیے بھیجے گئے بلوں پر آخری تاریخ کے اندر کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ اس کے بارے میں نائب صدر نے کہا کہ ہندوستان میں ایسی جمہوریت کبھی نہیں رہی ہے جہاں جج قانون ساز، ایگزیکٹو اور یہاں تک کہ ’’سپر پارلیمنٹ‘‘ کے طور پر کام کرتے ہیں۔
نائب صدر نے کہا کہ حالیہ فیصلے میں صدر کو ,ہدایت دی گئی ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ صدر کا عہدہ بہت بلند ہے، جب کہ دوسرے صرف آئین پر عمل کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ جب کوئی گورنر آئین کے آرٹیکل 201 کے تحت صدر کے پاس بل محفوظ رکھتا ہے تو اس پر تین ماہ کے اندر کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہ ڈیڈ لائن اس فیصلے کا حصہ تھی جس میں تمل ناڈو کے گورنر کی طویل غیر فعالی اور ریاست کے بلوں کو منظور نہ کرنے کے حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے زور دے کر کہا کہ صدر کے پاس ‘پاکٹ ویٹو’ نہیں ہے اور وہ وقت پر اسمبلی سے منظور شدہ بلوں کو منظور یا مسترد کر دیں۔
تمل ناڈو حکومت بمقابلہ گورنر کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ گورنر کو اس بارے میں فیصلہ لینا ہوگا کہ اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ کسی بل کو مقررہ تاریخ کے اندر منظور کیا جائے، اسے روکا جائے یا صدر کو بھیج دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بل اسمبلی سے منظور ہو کر گورنر کے پاس واپس آجاتا ہے تو ان کے پاس بل کی منظوری کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ عدالت نے تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر گورنر مقررہ تاریخ پر عمل نہیں کرتے ہیں تو ان کا فیصلہ عدالتی نظرثانی کے دائرے میں آئے گا۔ عدالت نے کہا کہ گورنر آئین پر حلف اٹھاتے ہیں اور انہیں کسی سیاسی جماعت کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ گورنر کو کیٹالسٹ کا کردار ادا کرنا چاہیے اور بل پر بیٹھ کر رکاوٹ کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے گورنر کا 10 بل روکنے کا فیصلہ مسترد کر دیا تھا۔