نئی دہلی :
کئی ہفتوں سے جاری سیاسی بحران کے درمیان ریاست مہاراشٹرکی حکومت نے ریاست کے دو شہروں اور ایک ہوائی اڈے کے نام بدل دیے ہیں۔
اورنگ آباد کو اب سمبھاجی نگر اور عثمان آباد کو دھاراشیو کے نام سے پکارا جائے گا۔ اس کے علاوہ نئی ممبئی ایئرپورٹ کا نام بدل کر ڈی بی پاٹل ایئرپورٹ کر دیا گیا ہے۔
مہاراشٹرا کی کچھ سیاسی جماعتیں ایک عرصے سے ان شہروں کے نام بدلنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ادھو ٹھاکرے کی پارٹی شیوسینا ان میں سب سے نمایاں رہی ہے۔
جیسے ہی سپریم کورٹ نے بدھ کی شام فیصلہ کیا کہ گورنر کے حکم کے مطابق جمعرات کو مہاراشٹرا قانون ساز اسمبلی میں فلور ٹیسٹ کرایا جائے، ریاستی کابینہ نے ان شہروں کے ناموں کی تبدیلی کی منظوری دے دی۔ اس کے بعد فیس بک لائیو میں وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا۔
اورنگ آباد کا نام کیوں بدلا گیا؟
اورنگ آباد شہر اور ضلع اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے پر بحث چھڑتی رہی ہے۔ حال ہی میں اورنگ آباد شہر میں ہر طرف ’لو اورنگ آباد‘ اور ’سپر سمبھاجی نگر‘ لکھے ہوئے سائن بورڈ جگہ جگہ نظر آئے۔
سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے پر آواز اٹھا رہی ہیں۔
شہر میں ’لو اورنگ آباد‘ کا سائن بورڈ لگنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کہا کہ ’شیو سینا کئی سال سے اورنگ آباد کا نام بدلنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ شیوسینا اب ریاست میں برسراقتدار ہے، اس لیے اسے اب اس شہر کا نام سمبھاجی نگر رکھ کر اس مطالبے کو پورا کرنا چاہیے۔‘
لیکن مہاراشٹرا میں شیو سینا کی اتحادی کانگریس نے صاف کہا تھا کہ وہ شہر کا نام تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرے گی۔
اگرچہ کانگریس، جو کہ مہاراشٹرکی حکومت میں شامل تھی، اس معاملے کی مخالفت کرتی رہی ہے تاہم گزشتہ روز کابینہ میں نام کی تبدیلی کے بعد پارٹی نے اپنا ردعمل نہیں دیا۔
ادھو ٹھاکرے جو کل تک ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے، کہتے رہے ہیں کہ مخلوط حکومت سیکولر ازم کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور مغل بادشاہ اورنگ زیب اس معاملے میں فٹ نہیں بیٹھتے کیوں کہ وہ سیکولر نہیں تھے۔
نام کی تبدیلی سے پہلے ہی ٹھاکرے اپنے بیانات میں اورنگ آباد کو مسلسل ’سمبھاجی نگر‘ کے نام سے پکارتے رہے ہیں۔
کانگریس پارٹی کا اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کے معاملے پر موقف تھا کہ یہ مسئلہ مخلوط حکومت کی ترجیح نہیں ہے اور کانگریس پارٹی نام کی تبدیلی کی سیاست کے خلاف ہے جس سے سماج میں دراڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
تاہم کانگریس پارٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ انہیں سمبھاجی مہاراج پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اورنگ آباد کی تاریخ کیا ہے؟
اورنگ آباد میں سب سے زیادہ ہندوؤں کی آبادی ہے، لیکن مسلمانوں کی آبادی بھی کم نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے اس کا نام تبدیل کرنے کا معاملہ زور و شور سے اچھالا گیا ہے۔
اورنگ آباد میں رہنے والی تاریخ کی ریٹائرڈ پروفیسر اور اسکالر دلاری قریشی کہتی ہیں کہ ’عام طور پر اورنگ آباد کی تاریخ صرف یادو خاندان تک محدود رہی ہے، لیکن یہاں ستواہن دور کے شواہد بھی ملتے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ ’کنہیری کے غاروں میں لکھی تحریروں میں ستواہنوں نے اورنگ آباد کا ذکر راجت دگ کے طور پر کیا ہے۔
یہ غاریں اورنگ آباد یونیورسٹی کے قریب ہیں۔ درحقیقت یہ تجارتی راستے پر واقع ایک اہم مرکز تھا اور یہ تجارتی راستہ اُجین-مہشمتی-برہان پور-اجنتا-بھوکردن-راجت دگ-پرتشتھان-تیر سے ہوتا ہوا گزرتا تھا۔‘
تاریخ کے اسکالر پشکر ساہنی کا کہنا ہے کہ ’ملک امبر نے اس شہر کا نام فتح نگر رکھا تھا لیکن مغل بادشاہ شاہ جہاں نے جب 1636 میں اورنگ زیب کو دکن کا صوبیدار بنایا تو اس وقت اس شہر کا نام بدل کر خجستہ بنیاد رکھا گیا۔‘
1657 کے بعد شہر کا نام بدل کر اورنگ آباد رکھ دیا گیا۔ اورنگ آباد مغل تاریخ میں لاہور، دہلی اور برہان پور کی طرح اہم ہے۔
شروع میں اورنگ زیب کچھ عرصہ دولت آباد میں رہے لیکن بعد میں وہ خجستہ بنیاد (اورنگ آباد) چلے گئے۔ ان کو یہ جگہ پسند آئی اور یہاں بڑی تعداد میں کالونیاں قائم کی گئیں۔ اس کی قلعہ بندی بھی کی گئی۔ بعد میں اسے دکن کا دارالحکومت بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ملک امبر کی طرح اورنگزیب نے بھی یہاں 11 نہریں بنوائیں۔
دلاری قریشی بتاتی ہیں کہ کئی مسافروں نے اس شہر کی خوبصورتی کا تذکرہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اورنگ آباد کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں کی ہوا خوشبو سے بھری ہوئی ہے، جہاں کا پانی امرت کی طرح ہے۔ اورنگ زیب یہاں 1681 میں آئے اور پھر انھوں نے کبھی بھی دکن کو نہیں چھوڑا۔ انھوں نے خلعت آباد میں اپنے لیے ایک سادہ سا مزار بنانے اور اس پر تلسی کا پودا لگانے کے لیے کہا تھا۔‘
دھاراشیو کی کہانی
شیو سینا کئی دہائیوں سے عثمان آباد کا نام بدلنے کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے۔ نوے کی دہائی میں پارٹی کے وزیر اعلیٰ منوہر جوشی بھی اس کا نام دھاراشیو رکھنے کے حق میں تھے۔
دھاراشیو عثمان آباد کا پرانا نام ہے اور مقامی صحافی کملکر کلکرنی کا کہنا ہے کہ ضلع کو صرف انتظامی مقاصد کے لیے عثمان آباد کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق گاؤں اور دیہی علاقوں میں لوگ اسے اب بھی دھاراشیو کہتے ہیں۔
جب مہاراشٹرا کا مراٹھواڑہ علاقہ نظام آف حیدرآباد کے قبضے میں تھا تو بہت سے قدیم شہروں کے نام بدلے گئے تھے۔ دھاراشیو بھی ان میں شامل تھا۔
دھاراشیو کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں۔ سکند پران کے مطابق اس گاؤں میں دھراسور نام کا ایک آسیب رہتا تھا جس کے نام پر یہ جگہ دھراسور کے نام سے مشہور ہوئی۔ کہانیوں کے مطابق دھراسور نے شیو کی پوجا کی جس کے بدلے اسے بے پناہ طاقت کا تحفہ ملا۔ لیکن یہ طاقت حاصل ہونے کے بعد دھراسور نے لوگوں کو اذیتیں دینا شروع کر دیں۔
اس کے بعد دیوی سرسوتی نے دھراسور کو مار ڈالا۔ روایت ہے کہ ان کے نام پر گاؤں کا نام دھاراشیو رکھا گیا۔
سینئر صحافی اور مصنف بھرت گجیندر گڈکر نے ’دھاراشیو سے عثمان آباد‘ میں ذکر کیا ہے کہ دھاراشیو نام اس وقت کی تانبے کی تختیوں میں پایا گیا۔ 1972 میں حکومت کے ذریعے شائع ہونے والے عثمان آباد ضلع کے پہلے گزیٹیئر میں بھی دھاراشیو کا نام درج ہے۔
بھرت گجیندر گڈکر کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس بات پر کافی اختلاف ہے کہ اس شہر کا نام حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان کے نام پر عثمان آباد کیسے رکھا گیا۔ شہر کی میونسپل کونسل کے نظرثانی شدہ شہری ترقیاتی منصوبے کے باب ایک میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عثمان علی خان نے سنہ 1900 میں دھاراشیو کا نام بدل کر عثمان آباد رکھا۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو )