اکثر جمہوریت کا مستقبل اپوزیشن کے معیار پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسا خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب حکومت اپوزیشن کے خلاف مختلف ادارہ جاتی اختیارات استعمال کر رہی ہو۔ ایسے میں اپوزیشن اپنے لیے جگہ کیسے پیدا کرے گی؟ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس سے بھارت یاتراکو جوڑا جانا چاہیے۔ بلاشبہ بھارت جوڑو یاترا سیاسی طور پر ایک نئی جگہ بنانے کی کوشش ہے۔
‘بھارت جوڑو یاترا’ سیاسی اظہار کا مثالی ذریعہ ہے۔ قومی تحریک کی گرامر کے مطابق یہ بھی یاترا اور تپسیا کی ملی جلی شکل ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ یہ یاترا پوری طرح سے ایک شخص راہل گاندھی کے زیر اثر ہے۔ صحیح یا خود اعتمادی اور فیصلے کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔
سوال یہ ہے کیا یہ یاتراکانگریس کے اندر راہل گاندھی کو مضبوط کرے گی؟ کیا اس سے وہ سیاسی طور پر زیادہ قابل قبول رہنما بن جائںں گے؟ اس دورے سے راہل گاندھی کے لیے ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے۔ کیا یہ ووٹروں کو راغب کرنے میں کامیاب رہے گی اور کیا وہ خود کانگریس کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائے گیں کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کی لڑائی میں انتخابی اثاثہ ہیں؟ تینوں چیزیں اہم ہیں۔ نظریاتی طور پر راہل گاندھی اپوزیشن کے منتخب لیڈر ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف کھڑے ہیں۔ لیکن، ہندوستان سیکولرازم پر منقسم ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کو یکساں سول کوڈ جیسے سیاسی مسائل پر آزمایا جا رہا ہے۔
تحریر بھانو پرتاپ مہتہ। انڈین ایکسپریس میں شائع مضمون کا خلاصہ)