امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو اور اس علاقے میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی تجویز نے عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کو بھی مشتعل کر دیا ہے جبکہ اس سے سعودی عرب کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا یا اس بارے میں غور کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے محقق جیمز ڈورسی کہتے ہیں، ”اگر یہ ان کی پالیسی بنتی ہے، تو اس سے سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔‘‘
اسلام کے مقدس ترین مقامات کے گھر سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کو مشرق وسطیٰ میں ”سفارت کاری کے عظیم انعام‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کا مقصد خطے میں دائمی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
تاہم اگر غزہ کے فلسطینی اچانک بڑی تعداد میں اُردن اور مصر میں جلاوطن ہو جاتے ہیں تو دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ اور مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب کو اب اپنی سرحدوں پر عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن ساتھ ہی ریاض کو واشنگٹن کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کی بھی ضرورت ہے، جو اس کے تحفظ کا دیرینہ ضامن ہے اور اہم علاقائی کھلاڑی ایران کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ڈورسی کہتے ہیں، ”جب سلامتی کی بات آتی ہے تو سعودی عرب کے پاس واشنگٹن کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ کوئی اور نہیں ہے، چین بھی نہیں ہے، وہ تیار نہیں ہے اور اس قابل بھی نہیں ہے۔ اور یوکرین جنگ کے بعد کیا روس پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟‘‘
غزہ جنگ کے شروع ہونے سے پہلے تک ریاض حکومت امریکہ کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے عارضی مذاکرات میں مصروف تھی لیکن جنگ کے آغاز کے بعد سعودی عرب نے مذاکرات کا سلسلہ روک دیا اور اپنا موقف بھی سخت کر لیا۔
سعودی کا فوری,سخت ردعمل
امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور سعودی حکومت نے ٹرمپ کی تجویز پر غیر معمولی رفتار کے ساتھ ردعمل کا اظہار کیا۔ ان کے تبصروں کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد مقامی وقت کے مطابق صبح 4:00 بجے سعودی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک بیان شائع کیا، جس میں ”فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کوششوں کو واضح طور پر مسترد کرنے کا اعادہ کیا گیا۔‘‘
اسی بیان میں سعودیوں نے نیتن یاہو کے اس تبصرے کو بھی مسترد کر دیا کہ ریاض حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے والے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی تعلقات قائم نہیں ہوں گے۔
ٹرمپ کا منصوبہ ریاض کے لیے حقیقی خطرات کا حامل ہے، جو اقتصادی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کاروبار اور سیاحت کو راغب کرنے کے لیے استحکام پر انحصار کر رہا ہے۔سعودی محقق عزیز الغاشیان کہتے ہیں کہ اگر غزہ کے باشندوں کو بے گھر کر کے مصر اور اردن منتقل کیا جاتا ہے تو یہ ”علاقائی استحکام اور خاص طور پر سعودی سلامتی کے لیے ضروری دو ممالک کو کمزور کر دے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ”نیتن یاہو کی رضامندی کے ساتھ ٹرمپ کا یہ منصوبہ سعودی عرب کے لیے بڑے خطرات کا باعث ہے۔ یہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ وہ ریاض کی نظر میں امن کے حقیقی شراکت دار نہیں ہیں، خاص طور پر نیتن یاہو، جو بظاہر رعایت کیے بغیر تمام فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ منصوبے کے خطے پر اثرات
واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اینا جیکبز کہتی ہیں کہ ٹرمپ کے اعلانات ”خطے کو مزید غیر مستحکم کریں گے اور خاص طور پر سعودی عرب میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دیں گے۔‘‘ وہ مزید بیان کرتی ہیں، ”وہ سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آسانی نہیں بلکہ مشکل پیدا کر رہے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو اور اس علاقے میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی تجویز نے عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کو بھی مشتعل کر دیا ہے
کنگز کالج لندن کے اینڈریاس کریگ کہتے ہیں کہ اگر واشنگٹن کی طرف سے حکم دیا گیا تو بھی سعودی عرب آسانی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے آمادہ نہیں ہو گا۔ غزہ جنگ سے پہلے سعودی عرب اپنی سلامتی کی ضمانتوں کے لیے بات چیت کر رہا تھا اور اسرائیلی تعلقات کے بدلے میں سویلین جوہری پروگرام کی تعمیر میں مدد مانگ رہا تھا۔
اینڈریاس کریگ مزید کہتے ہیں، ”وہ امریکہ کی ملکیت ریاست نہیں ہے اور اس لیے ٹرمپ سے کوئی حکم بھی نہیں لے رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سعودی عرب اپنے موقف پر ثابت قدم رہے گا، کچھ تھوڑا بہت لین دین ہو سکتا ہے لیکن اصل سرخ لکیریں باقی رہیں گی۔‘‘