تحریر:نازش ہما قاسمی
جی ملت فروش، خدا فروش، دین فروش، قوم فروش، جھانسے باز، ملت کا سودا گر، قوم کو فروخت کرنے والا، قوم کو بزدلی کی طرف ڈھکیلنے والا، قوم کو بزدلی کا سبق پڑھانے والا، دجل، جھوٹ، مکر، فریب کا سہارا لے کر قوم کو بے وقوف بنانے والا، مکار، دغاباز،شریر، عیار، حیلہ ساز، فریبی، فتنہ پرداز، ابن الوقت، مطلب پرست، مفاد پرست، موقع پرست، دنیا پرست، حریص، طالع، لالچی، کاسہ لیس، خودغرض، بے مروت، بے غیرت، ڈھیٹ، طوطا چشم، بدلحاظ، نمک حرام، بے لگام، زبان دراز، منہ پھٹ ، شعبدہ باز، شاطر، چالباز، دلال، چلتا پرزہ، جعل ساز، چکمے باز، دسیسہ کار، بہانہ جو، بدنیت، رشوت خور، خائن، غاصب، بے ایمان، آفت کی پڑیا، فسادی ذہن کا حامل، فتنہ پرداز، نفاق الذہن، مارآستین، جھوٹا، وعدہ خلاف، ٹھگ، سفید پوش؛ مگر سیاہ باطن والا،میٹھی زبان؛ مگر دل میں کڑواہٹ، سفید چہرہ؛ مگر سیاہ دل رکھنے والا، دوغلا، بدطینت، نیچ، ملت فروش ہوں۔
ہاں میں وہی ملت فروش ہوں جسے جہاں، جب، جدھر موقع ملتا ہے ملت فروشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ہاں میں وہی ملت فروش ہوں جو مسلمانوں کے ہر مسلک، ہر طبقے ، ہر فرقے میں موجود ہوں۔ ابتدائے اسلام سے لے کر حال تک ہماری نسل کے ملت فروش افراد موجود ہیں، جنہوں نے چند سکوں کی خاطر، چند ٹکوں کے خاطر، پھوٹی کوڑیوں کی خاطر، نام ونمود ، جھوٹی آن بان شان کی خاطر ، نمک حرامی کرتے ہوئے مسلمانوں کا ، دین کا، قوم کا، خدا کا، خدا کے گھروں کا سودا کیا ہے۔ مظلوموں کے ساتھ دغابازی کرتے ہوئے ظالموں کی حمایت کی ہے، قاتلوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یہ قاتل ہیں، قزاق ہیں، ڈاکو، راہزن، لٹیرے ہیں، بدکردار ، بدوضع، بدچلن، فسادی، عیاش، گناہ گاراور خبیث الذہن ہیں پھر بھی ملت فروشی کرتے ہوئے ان کی حمایت کی ہے، ان کے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کیا ہے۔ حاکم وقت کے مظالم سے آگاہ رہتے ہوئے بھی اسے عادل ومنصف قرار دیا ہے، ان کے حق میں قصائد پڑھے ہیں، ان کے تاریکی بھرے دور کو مینارہ نور قرار دیا ہے، ان کی زیادتی ، ان کے غلط روش،نا انصافی ، حق تلفی، بدسلوکی، بدچلنی، ناشائستگی، کج ادائی، برے برتاؤ کو محاسن اخلاق میں شمار کیا ہے۔ ان کی دریدہ دہنی ، گستاخی، ذلالت، رذالت پر سب وشتم ، لعنت وملامت کے بجائےان کا دفاع کیا ہے۔
ہاں میں وہی ملت فروش ہوں جس کی نسل میں ہندوستان سے میر جعفر، میر صادق جیسے ملت فروش، ننگ وطن ، غداروطن پیدا ہوئے۔ ہاں میں وہی ملت فروش ہوں جس کا کردار اندلس کی تباہی میں بھی نظر آتا ہے اور جب تک دنیا رہے گی ہماری نسل پروان چڑھتی رہے گی، جہاں بھی حق پرست، دین دار، اہل صفا کی جماعت موجود ہوگی وہاں ہماری نسل وسعت پائے گی، ہماری نسل پروان چڑھتے ہوئے اونچے ، اعلیٰ وارفع مقام پر پہنچ کر رفعت وبلندی حاصل کرے گی، جہاں وہ دین کا سودا کرنے سے باز نہیں رہےگی۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم ملت فروش ہیں، قوم کے سودا گر ہیں، قوم کو بیچنے والے ہیں، قوم کو لٹتا ، پٹتا، کٹتا دیکھنے میں جو مزہ ہے وہ مزہ خوں آشامی ، قتل وغارت گری سے دور رہنے والے کیا جانیں۔ اگر ہم ملت فروشی نہ کریں تو ہماری نسلوں کا جینا دوبھر ہوجائے، آن بان ، شان ختم ہوجائے، ہم بھی عام مسلمانوں کی طرح دانے دانے کو ترسیں، اپنے حقوق کی بازیابی کےلیے پریشاں حال رہیں، تنگی و دشواری میں ہمارے ایام گزریں، کون نہیں چاہتا ہے کہ اس کے حالات اچھے ہوں، ہماری نسل نے شروع سے ہی اچھے حالات کو اپنایا ہے، عام مسلمانوں سے الگ روش اختیار کرتے ہوئے اپنے حال ومستقبل کی فکر کی ہے، ماضی کے اندھیروں میں سفر کے بجائے حال کے اجالے میں اپنی زندگی گزاری ہے، ہم نے اور ہماری نسلوں نے ظالم کو ظالم نہیں کہا کہ وہ اگر ناراض ہوجائیں گے تو حال بے حال اور مستقبل تاریک ہوجائے گا؛ اس لیے ہم حاکم وقت کو سجدہ کرنے کو کوئی عیب نہیں سمجھتے، انہیں اپنا ماویٰ وملجا قرار دیتے ہوئے ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ تاکہ ہمارے حالات عام مسلمانوں سے اچھے رہیں ، ہم کسمپرسی میں زندگی نہ گزاریں، خوشحال رہیں اور ہماری تاریخ بھی یہی رہی ہے کہ عام مسلمانوں سے ہمارے حالات اچھے ہی رہے ہیں، قوم کے برا بھلا کہنے سے اور ان کی گالیوں سے ہم بدمزہ نہیں ہوئے، ان کے عار دلانے سے ہمیں کبھی کوئی شرم نہیں آئی، ان کی دھمکیوں کو ہم نے کبھی خاطر میں نہیں لایا اس لیے اس سے ہم پر کبھی کوئی آنچ نہیں آئی، اخیر میں ایک اور بات واضح کردوں کہ اگر ہم برے ہوتے تو حاکم وقت کی آنکھوں کا تارا نہ ہوتے، انہیں ہم پر اعتباروبھروسہ نہ ہوتا، انہوں نے ہمیں، ہر دور میں اپنے تئیں مخلص پایا ہے، ان کے لیے ہم ہمیشہ وفادار رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ ہمیں ملت فروشی کے عوض قابل قدر معاوضہ دیا ہے جس سے ہماری سات پشتوں نے استفادہ کیا ہے۔
کون دنیاوی تعیش اور آرام پسندی کا خواہاں نہیں ہے، بس طریقے الگ ہیں، کوئی محنت و مزدوری میں خوش ہے تو کوئی تخت و تاج پر نازاں ہے اور مجھے ناز ہے کہ میں ملت فروش اور ایمان فروش ہوں۔ جب تک مجھ جیسے ملت فروش مسلم سماج میں رہیں گے کبھی بھی قوم و ملت کا بھلا نہیں ہوسکے گا؛ کیونکہ ہمارا کام اور ہمارا نصب العین ملت فروشی ہے۔اگر قوم کے حالات سدھر جائیں یا قوم میں بیداری پیدا ہو جائے تو پھر ہمارا مستقبل تاریک ہو جائے گا اور ہم ملت فروشوں کی تاریخ رہی ہے کہ ہم نے اپنے مفادات کی خاطر ہمیشہ قوم کا سودا کیا ہے اور آئندہ بھی قوم کا سودا کرتے رہیں گے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)