تحریر: نازش ہما قاسمی
جی معروف مدنی خاندان کافرد، صاحبزادہ شیخ الاسلام اسیر مالٹا محدث دارالعلوم دیوبند حضرت حسین احمد مدنیؒ ، پیرطریقت سابق صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید اسعد مدنیؒ اور موجودہ امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کاچھوٹا بھائی، محمود اسعد مدنی کا عم محترم ، سابق جنرل سکریٹری (متحدہ جمعیۃ) وموجودہ رکن عاملہ جمعیۃ علما ہند(الف)، کئی اداروں کا سرپرست، بادشاہ صفت ، شاہانہ طرز زندگی گزارنے والا، خوش حال، آسودہ، صاحب ثروت، دولت مند، سرمایہ دار، کامیاب تاجر، مستقل مزاجی سے دور، متکبرانہ لب ولہجے کا مالک، خود پسند، خوش معاش، خوش نصیب، خوش لباس، خوش پوشاک، خوش وضع ، خوش قطع، خوش اندام ، پیڑ پودوں سے الفت رکھنے والا، پھولوں ، غنچوں، کلیوں اور خوشبوؤں سے محبت کرنے والا، باغبان،گل ِ چہرہ، قومی یکجہتی و آپسی رواداری کا علم بردار، گنگا جمنی تہذیب کا پیروکار، عید ملن، ہولی ملن، دیوالی ملن تقریب کے انعقاد پر زور دینے والا، نفرت کے مقابل محبت کے فروغ کے لیے کوشاں، سیکولر مزاج، برادران وطن کے دیوالی کے تیوہار پر چراغاں کئے جانے کو شیخ الاسلام کی طرف منسوب کرنے والا اسجد مدنی ہوں۔ میری عمر والد محترم کی وفات کے وقت 1957میں محض دوسال کی تھی، مکمل تربیت برادر کبیر مولانا سید اسعد مدنی ؒنے فرمائی، 1975میں دارالعلوم دیوبند سے سند فضلیت حاصل کی، ساتھیوں میں مولانا سفیان قاسمی (مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند) مولانا انوارالرحمان قاسمی (رکن شوری دارالعلوم ) دیوبند وغیرہ ہیں۔ اساتذہ کی طویل فہرست میں قابل ذکر حکیم الاسلام مولانا قاری طیب صاحب قاسمی،علامہ خورشید عثمانی، خطیب الاسلام مولانا سالم قاسمی ، فخرالمحدثین علامہ انظر شاہ کشمیری ،علامہ حسین بہاری، علامہ وحیدالزماں کیرانوی، علامہ نعیم دیوبندی، علامہ نصیر احمد خاں ، شیخ بشیر احمد خاں، رئیس المحدثین مفتی سعید احمد پالنپوری رحمھم اللہ وغیرہم ہیں۔ میری شادی صوبہ بہار کے مردم خیز و زرخیز ، سیلاب زدہ ضلع سمستی پور کے ایک معروف تاجر گھرانے کے سمیع صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی، جن سے تین بچے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا حسن مدنی ہے۔
ہاں میں وہی اسجد مدنی ہوں جو ان دنوں اپنی ’یاد داشت‘ اور ’علمی لیاقت‘ کی وجہ سے زباں زَدِ خلائق ہوں، جس نے حال ہی میں گجرات کے سورت میں جامعۃ القرآت کفلیہ کے سالانہ اجلاس میں برادران وطن سے قربت، ان سے محبت والفت اور قومی یکجہتی پر بیان کے دوران شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی طرف من گھڑت بات منسوب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے خود مجھے واقعہ سنایا کہ جس دن دیوالی ہوتی تھی، عصر کی نماز کے بعد حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ مسجد سے نکلتے تھے ، ایک روپیہ ابا جی دیتے تھے، اور بازار سے میں موم بتی خرید کر لاتاتھا اور پورے دروازے پر ایک ایک موم بتی جلاتا تھا، اس لیے کہ آج دیوالی ہے، ابا جی عصر کے بعد ایک روپیہ دیتے تھے، ہم جاتے تھے اور موم بتیاں خرید کر لاتے تھے، رات میں جب تک جاگتے رہتے تھے، اس وقت تک موم بتیاں جلتی رہتی تھیں‘‘۔اسی بیان میں میں نے مسلمانوں سے یہ بھی کہا کہ ’’آپ لوگ ہولی اور دیوالی کی مبارکباد کیوں نہیں دیتے یہ سارے مساجد مدارس کیسے محفوظ رہیں گے‘‘۔ میں نے یہ بھی کہاکہ’’ آج ہم برادران وطن کو مسجدوں میں کیوں نہیں بلاتے، مسجدوں کی تعمیر اور مدارس کی تعمیر میں انہیں بھی بلائیں، ان سے بھی بنیاد رکھوائیں، انہیں بھی اپنے ساتھ لیں، جبھی کامیابی ملے گی‘‘۔
میرے بیان پر ہنگامہ ہے اور صحیح الفکر افراد حیرت زدہ ہیں کہ یہ میں نے کیا کہہ دیا۔ ان کی حیرت درست ہے اور ان کا ہنگامہ کرنا واجب ہے۔شیخ الاسلام آزاد ہند کے سب سے پہلے سیکولر انسان تھے، جنہوں نے مذہبی رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، وہ انسانیت کے علمبردار تھے، تقسیم ہند کے خلاف اور پاکستان جیسے ٹکڑے کے شدید مخالف تھے، انہوں نے پاکستان کو ٹھکراکر ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی اور مسلمانوں کو پاکستان جانے سے روکنے میں پیش پیش رہے، انہیں اپنے اس فعل کی وجہ سے اپنوں کے ستم سے بھی گزرنا پڑا؛ لیکن ہار نہیں مانی اور ایک محب وطن کی زندگی گزاری۔ ان کی زندگی ہم ہندوستانی مسلمانوں کےلیے رول ماڈل ہے اور ابھی جس طرح ملک کے حالات ہیں ان کے طریقہ کو اپنانے کی ضرورت ہے؛ لیکن اتنا بھی نہیں کہ ’دیوالی‘ کے تیوہار پر موم بتی جلائی جائے۔ آج دیوالی پر موم بتی جلانے، کل ہولی پر گلال اڑانے اور پرسوں گنپتی پر مورتی پوجا کی نوبت آسکتی ہے۔آج ہم مسجد اور مدرسے کی تعمیر میں ان سے مدد لیں ، ان کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھوائیں، کل کو ان ہی مساجد اور مدارس کو یہ کہتے ہوئے توڑا جاسکتا ہے کہ ان مسجدوں اور مندروں کی بنیادیں ہمارے آباواجداد نے رکھی ہیں اور وہ ہندو تھے، یہ مسجد نہیں مندر ہے، یہ مدرسہ نہیں شیوالہ ہے۔ کیوں کہ ان کے بانی ہمارے باپ دادا ہیں۔
دیوالی پر میرا بیان سرے سے غلط ہے، مجھے مکمل اعتراف ہے، میں قومی یکجہتی قائم رکھنے اور گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کے چکر میں بہک گیا تھا؛ اس لیے اس کی تردید ہونی چاہئے۔ اس تعلق سے دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی واضح ہے کہ ’’ہولی اور دیوالی وغیرہ ہندوٴوں کے مذہبی تہوار ہیں، مسلمانوں کے لیے غیروں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنا یا ان کا کوئی مذہبی تہوار منانا ہرگز جائز نہیں، سخت حرام ہے؛ بلکہ بعض صورتوں میں آدمی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے‘‘۔ میرے بیان کی معروف عالم دین مولانا سجاد نعمانی نے سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’گجرات کے ایک مدرسے میں بیٹھ کر ایک بہت بڑے خانوادے کے فرد نے جس طرح کی باتیں کی ہیں اس نے کلیجے کو زخمی کردیا ہے، کوئی سوچ نہیں سکتا تھا، واللہ کسی کے وہم وگمان میں نہیں آسکتا تھا، کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے بارے میں ایسی جھوٹی اور واہیات باتیں کہی جائیں گی، اور اس کے اوپر مدرسوں کے ذمہ داران کچھ نکیر بھی نہیں کریں گے، یہ کیا شخصیت پرستی ہے؟ اسی وقت ٹوکناچاہے تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میری گزارش ہے گجرات کے علماء سے کہ وہ اجتماعی طو رپر اپنا موقف واضح کریں، میں نے کل سے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو روک رکھا ہے، میں بہت سخت زبان میں تردید کروں گا اور سخت الفاظ میں کہوں گا کہ یہ کیا بکواس کی جارہی ہے‘‘۔
بہرحال !میرے دیوالی پر چراغاں والے بیان کا پس منظر جو بھی رہا ہو؛ لیکن شیخ الاسلام کی جانب اس طرح ایک تیوہار پر جشن چراغاں منسوب کرنا غلط ہے، اس بیان کے راوی کے طور پر میں نے اپنے برادر محترم، امیرالہند مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند وصدرالمدرسین کا نام لیا ہے اب تک ان کی جانب سے یا خانوادہ مدنی کے کسی فرد کی طرف سے کوئی تردید نہیں آئی ہے۔ جس کی وجہ سے قوم میں بے چینی واضطراب ہے، بڑے بڑے علماء کرام فکر مند ہیں، اگر میرا یہ بیان سچ ہے تو حضرت مدنی ؒ کی جو شخصیت ہے وہ مجروح ہوجائے گی اور عقیدت کا جو قلعہ ہے وہ منہدم ہوجائے گا اور اگر یہ غلط ہے تو اس افترا کی تردید لازمی ہے ۔ اس پر جتنا جلد ہوسکے خانوادہ مدنی کے کسی فرد کو تردید کرنی چاہئے اور صحیح باتوں و درست عقائد کی طرف قوم کی رہنمائی کرنا علما ئے دین کا فریضہ ہے اور فریضے میں کوتاہی کا مرتکب گناہ گار ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)