تحریر : مسعود جاوید
اردو زبان میں لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد فارغین مدارس کی ہے۔ گرچہ اردو ادب کی تعلیم مدارس میں نہیں دی جاتی ہے لیکن زبان کی حد تک مدارس کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
لیکن کیا ہر وہ شخص جسے اردو زبان آتی ہے وہ اردو ادب نظم و نثر افسانہ نگاری، ناول نگاری، تنقید ، تصنیف، تالیف، ترجمہ اور صحافت کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ظاہر ہے جس طرح کالج کے اردو زبان و ادب کے سبھی گریجویٹس کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی اسی طرح مدارس کے فارغین کے اندر بھی نہیں ہوتی۔
ادب کی مذکورہ بالا تمام اصناف مستقل ایک فن ہیں اور زبان دانی بلکہ زبان پر عبور محض ایک وسیلہ ہے۔
جب لکھنا مستقل ایک فن ہے تو ظاہر ہے اس فن کو سیکھنے کے لئے محنت کرنی ہوگی اور یہ محنت ہمہ جہتی ہوگی جس کی پہلی سیڑھی ہے۔
1 – کثرت مطالعہ: مطالعہ جہاں ایک طرف معلومات میں اضافہ کا سبب ہے وہیں زبان پر عبور اور اسلوب تحریر کی شائستگی کا ذریعہ بھی ہے۔
2- لکھنے کا مشق اور کسی سینئر سے اصلاح : دارالعلوم دیوبند میں دیواریہ کا رواج برسوں سے ہے جو مشق کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم ان پرچوں میں لکھنے والے طلبہ ہوتے ہیں جن کا موضوع محدود دینی ادبی فقہی یا سوانحی ہوتا ہے۔
3- معلومات عامہ: صحافت کا بیشتر حصہ سیاست سے مربوط ہوتا ہے۔ اس لئے ملکی و بین الاقوامی سیاست سے واقفیت صرف اخبارات کے تو سط سے نہیں بلکہ معتبر مصادر ومراجع، ریفرنس بک، انسائیکلوپیڈیا اور ویکیپیڈیا سے حاصل کرنا ۔
4- ملک کے نظام، دستور، اتحادی نظام، ریاستوں کی خودمختاری اور قیود ، مرکزی نظام اور لامرکزیت، صدر و نائب صدر کا انتخاب، مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے لئے انتخابات کا طریقہ کار وغیرہ کے بارے میں بنیادی معلومات۔
5- ان کے علاوہ ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اور دفاع بہت حساس موضوع ہوتے ہیں۔ اس میں سرخ لکیر ہے جسے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اسی لیے کہنہ مشق صحافی بھی ایسے حساس موضوعات پر لکھنے سے احتراز کرتے ہیں۔
6- جس بابت تحقیق نہ ہو اور آپ کسی سے سن کر یا کہیں پڑھ کر کچھ لکھ رہے ہیں تو اس سے پہلے ’ مبینہ طور‘پر ضرور لکھیں تاکہ آپ کی گردن نہ پھنسے۔
7- صحافتی اصول و ضوابط کے تحت ہر ایسے جملے سے گریز کریں جو فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث ہو سکتے ہیں یا ماحول کشیدہ کر سکتے ہیں، اسی لیے فساد میں مرنے والوں، زخمی ہونے والوں یا عصمت دری کی شکار ہونے والی کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے مبادا متاثرہ فرقہ کے لوگ مشتعل ہو کر انتقام کے لئے دوسرے فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنانے لگیں۔
8- آپ لکھنے کا( اس سے مخاطب خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر لکھنے والے ہیں) اپنا مقصد متعین کریں۔اگر آپ کسی سیاسی پارٹی کے کارکن نہیں ہیں تو خواہ مخواہ کسی پارٹی کا آلہ کار کی طرح نہ لکھیں۔ بی جے پی یا کسی اور پارٹی جسے آپ پسند نہیں کرتے اس کے ذمہ دار کرپشن، عصمت دری، رشوت وغیرہ میں ملوث پائے گئے اس طرح کی خبروں پر بہت زیادہ توانائی صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔آب کسی آئی ٹی سیل کے کارکن یا ٹرول پارٹی کے ممبر نہیں ہیں۔ حکومتوں کی عوام مخالف بالخصوص اقلیت مخالف پالیسیوں کا جائزہ لیں اور حقائق کی روشنی میں تبصرہ کریں اور اعداد وشمار کو سامنے رکھتے ہوئے مدلل لکھیں۔
9- سیاسی رجحان رکھتے ہوئے بھی صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے۔ آپ کی تحریر مثبت اور تعمیری ہونی چاہیے۔ حکومت کی خراب کارکردگی پر تنقید کرنا حکومت سے سوال کرنا نہ صرف صحافی بلکہ ہر شہری کا حق ہے۔ مگر غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ وہ اس حکومت کے اچھے کاموں کی محتاط انداز میں ستائش بھی کرے اور عوام کو رفاہی اسکیموں سے بروقت واقف کراتا رہے۔