تحریر:شعیب رضا فاطمی
ایک مشہور اردو شعر کو استعمال کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ڈھونڈوگے کہاں ملکوں ملکوں ملنے کا نہیں نایاب تھا وہ جی ہاں بات اسی کمال خان کی ہو رہی ہے جسے 14 جنوری کی صبح نے مہلت نہیں دی کہ وہ اپنی سچی صحافت کا الکھ ابھی اور جگائے۔ وہ داستان سیاست سناتے سناتے سو گیا۔ ایک ایسی نیند جسے صور قیامت جگائے گی اور اس وقت جب وہ اٹھے گا تو بحیثیت صحافی نہیں بلکہ اللہ کے ایک نیک بندے کی حیثیت سے۔ اور اعلان ہوگا کہ اس خدا کے بندے کی جگہ جنت ہے کیونکہ اس نے دنیاوی زندگی میں حق گوئی کو ہی اپنا مذہب و مسلک سمجھا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اسے ایک روز اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
کمال خان کا یہی کمال تھا جس نے اسے مرنے کے بعد بھی سرفراز کر دیا۔ کمال خان اس ملک کا ایک صحافی ہی تو تھا۔ وہ بھی اس زبان کا صحافی جس زبان کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں۔ اس ملک کا صحافی جس ملک میں صحافی ہونے اور سرکاری دلال ہونے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس دور کا صحافی جب صحافت کے اقدار کی کوئی قیمت نہیں۔ اس اسلوب کا صحافی جو اس کا اپنا تھا۔
اس نے اپنی زندگی کو صحافت کے لئے وقف کر دیا تھا یا یوں کہیں کہ وہ صحافت کے ہاتھوں خود کو فروخت کر چکا تھا۔
لکھنؤی تہذیب کا پروردہ، رفتار و گفتار میں تناسب رکھ کر جب وہ اپنی رپورٹنگ کے پورے پیکیج کا مطلع ریکارڈ کراتا تھا تو اس کا عمیق مطالعہ اسے ایک ادیب بنا دیتا تھا۔ ایک ایک جملے میں تاریخ اور تہذیب کے سات در کھل جاتے تھے۔ منظر نگاری ایسی کی پوری رپورٹ کا ویزوول آنکھوں کے سامنے سلائیڈ کی طرح چلنے لگتے تھا۔ اور اس کا ٹھہرا ہوا لہجہ سامع کو اپنے حصار میں قید کر لیتا تھا۔
کمال کی سمجھ تھی اور بے پناہ مطالعہ نے اسے زباندانی کا ساحر بنا دیا تھا۔ وہ اپنی خبروں کے متن سے حظ اٹھاتا تھا۔ ایک ایک جملے سے شاعری کی شیرینی ٹپکتی تھی اور اس سے بھی جب اس کا دل نہیں بھرتا تو قدیم و جدید شعرا کے برمحل شعر کی پچی کاری کر دیا کرتا تھا۔
کمال خان کی ایسی تمام رپورٹ کو جرنلزم کا نصاب بنایا جا سکتا ہے تاکہ موجودہ اور آنے والی نسل یہ سمجھ سکے کہ صحافت کو ادب پارہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ لفظوں کو برتنے کا فن کیا ہوتا ہے۔ اختصار کیا ہوتا ہے اور مختر نویسی صحافت کی شان کیوں ہے۔
کمال خان نہایت معتدل انسان تھے۔ میانہ روی ان کی خصلت تھی اور وہ انسانی اقدار کا پاس رکھنا جانتے تھے۔ یوں کہا جائے کہ وہ گنگا جمنی تہذیب جسے ملواں تہذیب کہنا زیادہ مناسب ہے کے نمائندہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ اجودھیا کے حوالے سے ان کی رپورٹنگ نے پورے ملک کے لوگوں کو متاثر کیا اور ان کی نمائندہ رپورٹنک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
اس رپورٹنگ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو سننے کے بعد رام مندر بابری مسجد تحریک کے تمام ابعاد روشن ہوجاتے ہیں اور سامعین کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ رام چندر جی جیسی عظیم شخصیت کا جس طرح سیاسی استعمال ہوا ہے وہ ناقابل فراموش ہے اور آنے والی نسلوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ رام سیاست کے لئے نہیں بلکہ عقیدت کے لئے ہیں۔ ان کے عمل و کردار کو اپنائے بغیر ان کی بھکتی کا سارا دعویٰ فضول ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اپنی ایک رپورٹنگ میں کمال خان نے کیفی اعظمی کی نظم ’’دوسرا بن باس‘‘ کی قرات کی تھی تو نہ جانے کتنے ہندوستانیوں کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔ ان کا ٹھہرا ہوا لہجہ، اور اس میں گھلا ہوا درد و کرب وحشت و دہشت کے دیوثوں کو بے نقاب کر رہا تھا۔
اور ساتھ ہی رام چرتر مانس کی چنندہ چوپائیوں کو جب انہوں نے اس رپورٹ میں نگینے کی طرح جڑا تو ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں صدیاں آنکھوں کے سامنے آ گئی ہوں۔
صحافت کو آسان سمجھنے والوں کو کمال خان کی محنت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کمال خان نے یہ سارا کچھ بہت آسانی سے نہیں کیا۔ ہندی، اردو، انگریزی کے ساتھ ساتھ ساتھ ساتھ وہ روسی اور فارسی و سنسکرت زبان سے بھی واقف تھے۔ اودھی زبان کے چیدہ چیدہ لفظ جب وہ اپنی رپورٹنگ میں شامل کرتے تھے تو عام لوگ بھی اس رپورٹ کی حرف حرف سچائی کے قائل ہو جاتے تھے۔
ٹیلی ویژن رپورٹنگ کی بڑی خوبی یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس میں رپورٹر سامعین کے سامنے ہوتا ہے۔ اخباری رپورٹر کی طرح پردہ غیاب میں نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس کے مداح اسے شکل سے بھی پہچانتے ہیں لیکن یہ خوبی اس وقت بہت مہلک ثابت ہوتی ہے جب رپورٹر حق گو ہو اور اس کی حق گوئی حکومت وقت سے لے کر قانون شکنی کرنے والوں تک کو بے لباس کر دے۔ ایسے میں اس رپورٹر کی جان پر بن آتی ہے جبکہ اسے عوامی ہجوم کے درمیان اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔
کمال خان ایسے تمام جوکھم کو سمجھتے ہوئے رپورٹنگ کرتے تھے اور ان کی حتی الامکان کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ کسی کی دلازاری نہ کریں اور اس کے لئے ان کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ اپنی رپورٹ میں ایسے الفاظ کا استعمال کریں جو ہتھیار کی طرح کاٹے نہیں بلکہ خوشبو کی طرح اندر تک اتر جائے اور سننے والا اس کے مفہوم کو سمجھنے کے باوجود اس کے سحر سے آزاد نہ ہو۔ اور اس کے لئے جس عمیق مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے کمال وہ کرتے تھے۔
آج جب ان کا انتقال ہو گیا ہے تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کی صحافتی فضا سوگوار ہے اور کاشی میں گنگا آرتی کے دوران پہلی بار کسی صحافی کے نام پر گنگا آرتی کی گئی ہو وہ بھی اس دور میں جب چند ہفتہ پہلے یہ اعلان کیا جا چکا ہو کہ اب اس آرتی میں مخصوص مذہب کے لوگوں کے سوا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔
مذہبی نفرت کےاس دور میں جھلملاتے دیپک کے درمیان کمال خان کی مسکراتی تصویر اور پس منظر سے ابھرتی آرتی کے مخصوص اشلوک اور گھنٹی کی آواز نے کروڑوں ہندوستانیوں کے دل پر جو اثر چھوڑا ہے اور ملواں تہذیب کو مجسم کیا ہے وہ بھی کمال خان کی شخصیت کا ایک نادر پہلو ہے۔ اور اس کو باقی رہنا چاہئے۔ کیونکہ یہ ہمارے ملک کی اصل شناخت ہے۔ ہماری تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ جسے کمال خان کی موت نے ہمارے سامنے لا کر پیش کردیا۔