نئی دہلی :
اس وقت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے متعلق تین باتیں زیربحث ہیں۔ ایک مرکزی ٹیم میں ہوئیں تبدیلیاں ، دوسرا سنگھ میں اے بی وی پی جیسی ماتحت تنظیم کا مضبوط ہوتے جانا اور تیسرا بی جے پی سے سنگھ میں رام مادھو کی واپسی۔
سنگھ میں فی الحال دو لوگوں کی بی جے پی سے واپسی ہوئی ہے ۔ رام لال اور رام مادھو ،دونوں سنگھ کی جانب سے بی جے پی میں بھیجے گئے تھے۔ دونوں نے مناسب مدت کے لئے پارٹی میں اہم ذمہ داریاں سنبھالیں۔ رام لال تنظیم کے وزیر رہے تو رام مادھو کشمیر سے لے کر شمال مشرق تک اپنا اہم کردار ادا کررہے تھے۔ لیکن دونوں کی پارٹی میں اننگز ختم ہوگئیں، لیکن پارٹی سے آزاد ہونے کے بعد دونوں خالی نہیں ہیں۔ سنگھ کےکنبے نے ان دونوں کو ایک بار پھر اپنایا ہے۔ رام لال کے بعد اب رام مادھو کی بھی پارٹی سے پریوار واپسی ہوچکی ہے۔
اس سے پہلے بھی کچھ لوگ سنگھ سے پارٹی میں بھیجے جاتے رہے، دو لوگوں کے نام تو کافی بحث میں رہے۔ دونوں پارٹی سے آزاد ہوئے لیکن سنگھ نے انہیں رام لال یا رام مادھو جیسا واپسی کا اختیار نہیں دیا۔ یہ دونوں نام ہیں گووند آچاریہ اور سنجے جوشی کے سنگھ کے لئے ان دونں کو واپس نہ لینا اور اب رام لال اور رام مادھو کو واپس بلا لینے میں ایک بہت ہی واضح پیغام ہے۔
رام لال اور رام مادھو کی واپسی کے ساتھ ہی سنگھ نے یہ پیغام دیا ہے کہ پارٹی سے آزاد ہونے کی وجہ سے اگرتنازع اور بغاوت نہیں ہے تو سنگھ کے وسیع تانے بانے میں پھر سے آباد ہونے کی کافی گنجائش ہے۔ سنگھ کے کام کا دائرہ بہت وسیع ہے اور سب کی افادیت اور تجربے کے مطابق کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
سنگھ کاانتخاب :
آر ایس ایس میں موہن بھاگوت کے بعد سرکاریوہ(جنرل سکریٹری) اور دیگر عہدوں پر کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ دتاتریہ ہوسوبلے کوڈپٹی جنرل سکریٹری سے جنرل سکریٹری بنادیا گیا ہے۔ یہ سنگھ میں سرسنگھ چالک کے بعد دوسرا سب سے بڑا عہدہ ہے۔ دتاتریہ کو 2016 میں یعنی اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے ایک سال قبل ریاست کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔ ایک سال بعد ریاست میں بی جے پی کی کامیابی تاریخی تھی۔
لیکن اس انتخاب سے قبل دتاتریہ کا مستقبل تقریباً طے ہوچکا ہے۔سنگھ کے لیے 1992 سے 2003 تک اے بی بی پی کی ذمہ داری نبھالتے ہوئے دتاتریہ کوواپس لانا دراصل مستقبل کی نئی نسل کو تیار کرنے کے پیش نظر ایک فیصلہ تھا جو اب پوری طرح سے تسلیم ہوچکا ہے۔
ہوسوبلے کے علاوہ سنگھ نے سنیل امبیکر کو بھی اپنی مرکزی ٹیم میں شامل کیا ہے اور انہیں تشہیر کے سربراہ کی ذمہ داری بھی سونپی ہے۔ امبیکر بھی اے بی وی پی سے آئے ہیں۔ اس سے نہ صرف مرکزی ٹیم میں اے بی وی پی کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ہوسوبلے کو بھی تقویت ملی ہے۔
اے بی وی پی کا بڑھتا اثر
دراصل حالیہ برسوں میں اے بی وی پی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ پارٹی کے ساتھ ساتھ سنگھ میں بھی۔ جے پی نڈا سے لے کر سنیل بنسل تک بی جے پی کے نمایاں چہرے اے بی وی پی سے پارٹی میں اعلیٰ اور موثر عہدوں پر پہنچ گئے ہیں۔ مودی حکومت میں 100 کے قریب ممبران پارلیمنٹ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اے بی وی پی سے وابستہ ہیں۔
اقتدار کے ساتھ ساتھ سنگھ میں بھی اے بی وی پی کے بڑھتی نمائندگی سے پارٹی کو اور بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے۔
اس کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ دراصل سنگھ شاید اٹل بہاری واجپئی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے دوران اٹل اور سودرشن کے مابین لائن کافی موٹی تھی۔ دونوں ایک نظریے اور ایک سوش کے باوجود الگ الگ سمت میں دکھتے تھے۔ اٹل کے قریبی وزراء میں ایسے کئی چہرے تھے جو سنگھ کے پس منظر سے نہیں تھے ۔ کام کاج اورآرڈننس میں تعطل تھا۔
لیکن اپنے صد سالہ سال کی طرف بڑھ رہے سنگھ کے لئے ابھی محاذ آرائی نہیں ہے، امتزاج اور پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ یہ ماناجارہا ہے کہ ہوسوبلے کی حکومت میں شمولیت اور امبیکر کی شمولیت بہتر امتزاج میں معاون ہوگی۔