شاہنواز خاں
نوٹ:
امارت شرعیہ میں امیر کے انتخاب پر لڑائی کوئی پہلا یا حیرت انگیز معاملہ نہیں ہے، ماضی میں یہاں کے درو دیوار شریعت کی ڈھال کے ذریعہ طاقت کے مظاہرے، جوڑ توڑ ، سازشیں ،پگڑیاں اچھالنے ،جیسے مظاہر دیکھ چکے ہیں اور اب تو عقیدت مندوں کی ٹرول فوج ہے، سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہے، اس لیے ہر تماشہ ہورہا ہے ،پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی بھی کچھ بیان کرتی ہے یہ مضمون مسلمانوں کے درد کے حوالے سے لکھا گیا اور عہدے کے لیے لابنگ کا رونا رویا گیا ہے مگر خود صاحب مضمون کسی کے لیے لابنگ اور بیٹنگ کرتے نظر آرہے ہیں تو اصلی درد کیا ہے وہ سمجھ آجاتا ہے قاریین یہ مضمون ملاحظہ کریں اور ڈوریاں کہاں سے ہل رہی ہیں وہ محسوس کریں
( ادارہ)
امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کا کرب دروں اب منظر عام پر آگیا اور اس کے اندر کےناسور کے پھٹنےاور اس عظیم ادارے کے کراہنے کی آواز سے ارباب حل وعقد کے بڑے طبقے کے علاوہ عام مسلمانوں، ملت کے ہمدردوں ،دین وشریعت کے فکر مند ذی شعورحضرات میں شدید بے چینی ، بد دلی وبیزاری پیدا ہو رہی ہے۔
گذشتہ دنوں امارت شرعیہ کے ایک مخلص ہمدرد صحافی کا بیان نظر نواز ہوا تھا، کیفیات خاطر اندوہ و رنج ،سے دوچار تھی،کہ سوشل میڈیا پر گشت کرتےایک بیان نے ذہن و دل پر ضرب کا ری لگائی اور پہلے سے بوجھل دل ودماغ کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ خبر نہایت ہی تشویش ناک اور پریشان کن ہے کہ جناب فہد رحمانی، مرحوم حضرت ولی رحمانی کے چھوٹے صاحبزادے نے اپنے بڑے بھائی کو امیر شریعت کی کرسی پر بٹھانے کی زبردست مہم چھیڑ رکھی ہے اور وہ جناب خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حیدر باد تک کمپین کرنے پہنچ گیے۔ واٹس ایپ کے اس بیان میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جناب خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ان کی حرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حمایتی تجویز پر دستخط نہیں کیا۔ واٹس ایپ پیغام کے ذریعے لوگوں نے خالد سیف اللہ صاحب کے اس عمل کی ستایش کرتے ہوے ان کے جذبے کو سلام کیاہے۔
یوں تو ساتویں امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کی زندگی کے آخری ایام سے ہی اس عظیم المرتبت ادارے کے احوال قابل فکرہونے لگے تھے اور اس کا کرب دروں پریشان کن صورت اختیار کرنے لگا تھا، عام آدمی امارت شرعیہ کے احوال اور منظر عام پر آتی خبروں سے انگشت بدنداں ہوکر اللہ کے دربار میں فریاد رس تھا کہ اللہ اپنی حکمت سے بچا لے بہار ،اڑیسہ، جھارکھنڈ کے مسلمانوں کی اس اہم اور نمایند تنظیم کو اور میرے جیسا جاہل آدمی مجبور تھا،مضطرب تھا، اس دعا کے لیے کہ یا اللہ اخلاص پیدا کر ہمارے اکابرین کے دل میں، اور اپنے خوف،اور تقوی سے انہیں نواز دے، تاکہ عوام اور عام مسلمانوں کے دل وذہن میں موجود ان کی عظمت مجروح ہونے سے بچ جائے۔
مرحوم حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کی ذات گرامی اور ان کی قایدانہ صلاحیت سے یہ یقین تھا کہ وہ اپنے اسلاف ،مخلص بزرگوں کے ذریعہ قایم کردہ اس عظیم ادارے کی اپنے تدبر اور دینی بصیرت سے حفاظت کر لیں گے۔ بلکہ بزرگوں، اور اکابرین کے اخلاص کے اس شجر کی مزید آبیاری کر کے اس کے ثمر سے ملت کو مستفیض کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اپنے آخری ایام میں پوری توانائی کے ساتھ وہ اس سمت چل پڑے تھے ان کے سارے اقدام کی پزیرائی ہو رہی تھی۔ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کی غرض سے تعلیمی بیداری مہم ،امارت کی ضلعی تنظیم کی مضبوطی مہم ،ملت کے مسائل کے حل کےلیے سیاسی اقدام، ارباب اقتدار سے رابطہ اور اردو تحریک میں روح پھونک کر ،اردو تہذیب وتمدن کے فروغ کی فکر وغیرہ سارے معاملے میں ان کی کارکردگی قابل تحسین تھی انہوں نے واقعتاً ملت کی رہنمائی کا حق اداکیا۔ اور ملت بھی ان کی آواز پر لبیک کہنے میں کوتاہ نہیں تھی۔ دین بچاؤ دیش بچاؤ تحریک میں مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کا مظاہرہ دنیا نے دیکھا، لیکن مشیت ایزدی کو کیا منظور تھا ،عین وقت پر جب کہ ان کی رہنمائی کی ضرورت تھی، انہیں مالک کل نے اپنے پاس بلا لیا۔ دلوں کا حال تو اللہ ہی کو معلوم، ہم تو ظاہر ی اسباب کی بنا پر ہی سوچتے، سمجھتے اور اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ مرحوم کی موت کے بعد کی ابدی زندگی ضرور بہتر ہوگی اللہ نے انہیں اعلیٰ مقام عطا کیا ہوگا۔اس دنیا کی بہتر کارکردگی کے صلہ سے انہیں نواز ا گیا ہو گا۔ اللہ کی ذات سے ہمیں تو یہی توقع رکھنی چاہیے اورہم اللہ سے یہی دعا بھی کرتے ہیں۔ اللہ انہی کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
لیکن حضرت کی رخصت کے ساتھ ہی امارت میں اتنا بڑا بھونچال آجائے گا، ان کے پسماندگان، ان کے شیدائیوں، حمایتیوں ،ان کے پروردہ علمائے دین، اور ان کے خفیہ مخالفین اور ان کے عمل سے ناراض عماید کے مابین کی رسہ کشی اس حد تک پہنچ جائے گی کہ امارت کا وقار ہی داؤ پر لگ جائے گا،ایسا تصور نہیں کیاگیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس فتنے کی بنیاد ان کی زندگی میں ہی ڈال دی گئی تھی۔
انہوں نے نہ معلوم کس مصلحت کے تحت ایام سرکردگی میں اپنا نائب نامزد نہیں کیا اور آخر میں ہسپتال میں مولانا شمشاد رحمانی صاحب کو دستار نیابت سے سرفراز کیا۔ اب اتنے بڑے فیصلے میں کونسا جذبہ کار فرما تھا ،یہ تو اللہ کو معلوم اور اس کی ضابطگی پر زبان درازی کرنے کا نہ میں اہل ہوں نہ میری بساط ہے اور نہ ارادہ۔ وہ تو اکابرین جانیں، ارباب حل عقد جانیں، اہل شوری جانیں ۔ اہل خرد جانیں۔ ویسے پوری اسلامی تاریخ اس طرح کے واقعات، حادثات، وسوسوں، فتنوں سے بھری پڑی ہے۔ ابھی اس میں، میں آپ کو الجھانا نہیں چاہتا۔
ابھی مجھے عام مسلمانوں کے درد میں شامل ہونے دیجیے۔ خدا را اس عظیم ادارے کے حفاظت کی فکرکیجیے۔ امیر شریعت کے عہدے کے انتخاب کو سیاسی انتخا ب کی طرح لابی ، پرچار ،اشتہار یا دستخطی مہم سے بچائیے ، اب تک بے لوث مخلص خداترس بزرگ کی خوشامد کر کے امیر کی ذمہ داری اٹھانے کی گذارش کرنے کی روایت کو باقی رکھیے۔
ابا کی میراث سمجھ کر امیر شریعت بننے کی خواہش رکھنے والا کبھی امیر بننے کا اہل نہیں ہوسکتا اور اہل تو وہ بزرگ بھی نہیں ہو سکتا جو خود کی دعویداری پیش کرتا ہو اور اس کے دل میں امارت کے لیے لڈو پھوٹ رہے ہوں۔
اب ایسی صورتحال پیدا ہونے جا رہی ہے کہ اس عظیم ادارے کے بہی خواہ حضرات کی خاموشی کے باعث سنگین صورتحال رونما ہو سکتی ہے۔علمائے حق اور ارباب حل وعقد کو آگے بڑھ کر کوی تدبیر کرنی چاہیے۔ ہر آدمی جناب خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی شخصیت سے متاثر ہے اور سب کی نظر میں وہی سب سے اہل بزرگ ہیں جو اس نازک صورتحال میں امارت کے وقار کی حفاظت کر سکتے ہیں اور موجودہ بحران کے اس بھنور سے کشتی امارت کو نکال کر کنارے لگا سکتے ہیں۔ تو پھر کیوں نہیں غیر جانبدار ارباب حل وعقد علمائے حق اور امارت شرعیہ سے ہمدردی رکھنے والے مخلصین حضرات، ماضی کی روایت کو دہراتے ہوے انہی سے یہ ذمہ داری قبول کرنے کی گذارش کریں ۔ان کی خوشامد کریں ، التجا کریں کہ ایسی نازک صورتحال میں اس فتنے کو سر کرنے کی یہی ایک ترکیب نظر آرہی ہے۔ اکثر لوگوں سے سننے کو ملا کہ وہ تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے،لیکن بالاتفاق ،مشترکہ طور پر ان سے رجوع کیا جائے تو وہ یہ ذمہ داری قبول کرلیں گے۔ کچھ لوگوں نے شروع میں ہی حیدرآباد میں ان کی مصروفیت،ان کی وہاں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک منصوبہ کے تحت یہ خبر گشت کرا دی کہ خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ذمہ داری لینے سے انکار کردیا ،حالانکہ یہ مصدقہ خبر نہیں تھی، انہوں نے موجودہ بحران اور فتنے کے پیش نظر کنارہ کشی کا فیصلہ کیا تھا۔ ممکن ہے حیدرآباد میں ان کی جمی جمائی حیثیت ،ان کی مشغولیت ان کی اعلٰی ظرفی اور شریفانہ طبیعت بھی مخل ہو ، لیکن اب تو وقت وحالات کے تقاضے کے پیش نظر ان کی قربانی بڑی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے ، اللہ ان کے دل میں بات ڈال دے اورہمارے اسلاف نے تو اپنا آشیانہ جلا کر زمانے کو جلا بخشی ہے۔ وہ امارت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لے کر فی الحال فتنے کو تو سر کرنے کی زحمت گوارہ کریں،پھر اللہ قادر ہے کوئی نہ کوئی صورت نکال دےگا ، ان شا ء اللہ ـ
ابھی ضرورت ہے کہ فوراً امیر کے انتخابی عمل کو روک کر زیادہ سے زیادہ حضرات اپنے اپنے طور پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے رجوع کریں انہیں راضی کرانے کی سعی کریں، کچھ علما حضرات نے تو یہاں تک بیان دیا کہ اگر امارت کی کرسی جناب فیصل رحمانی کے حوالے اس لیے کر دی گئی کہ وہ حضرت ولی رحمانی مرحوم کے صاحب زادے ہیں تو وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ تب تو انتشار اور فساد کی صورت حال پیدا ہوگی اور امارت شرعیہ اور مسلمانوں کے بدترین منظر رونما ہوں گے۔ ذی شعورحضرات ، حساس اور مخلص علما سب امارت شرعیہ کی شبیہ بگاڑنے کے جرم کے مرتکب ہوں گے۔ ائمۂ مساجد نے جو اعلان کیا ہے وہ خوفناک صورتحال کا غماز ہے اور بربادی کا پیش خیمہ ہوگا۔ لہذا ویسی نوبت نہیں آوے اس کی فکر کی جائے اور فتنہ کے بڑی شکل اختیار کرنے سے قبل اس کو دبانے بجھانے کے اقدام کیے جائیں یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
(سابق رکن بہار پبلک سروس کمیشن)