سوشل میڈیا اسلام” نے آج عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کو اپنا اسیر بنایا ہوا ھے. عمومی طور پر لوگ اسلامی مضامین، وڈیوز وغیرہ پر غور و فکر اور عمل کرنے کی کوشش سے زیادہ دوسروں کو فارورڈ کرنا ہی کارِ ثواب سمجھتے ہیں , یہ ممکن ہی نہیں ھے کہ دین کی تعلیمات حاصل ہو جانے کے بعد انسان عمل میں کوتاہی برتے.*
*یہ کیسے ممکن ہو سکتا ھے کہ انسان اسلام کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے گرد و پیش سے بے تعلق رھے، اُسے تو معاشرے میں بھلائیوں کو پھیلانے، برائیوں کو مٹانےتمام انسانوں کی خیر خواہی کے لئے ہی پیدا کیا ھے*.
*انسانی تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ھے کہ ایک بستی میں ایک بہت زیادہ عابد و زاہد شخص موجود تھا اور آبادی میں تمام قسم کی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی بہتات تھی.*
*ایک روز خالقِ کائنات رحمان و رحیم اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس کیفیت پر جلال آیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ جا کر اس آبادی کو نیست و نابود کر دو، فرشتوں نے کہا کہ اے میرے مولا اس بستی میں تو فلاں شخص بھی رہتا ھے جو کہ کبھی تیرے ذکر سے غافل نہیں ہوتا، تو حکم ہوا کہ اس شخص کے مقام سے ہی بستی کو مٹانے کا آغاز کرو.*
*آئیے اس واقعہ کی روشنی میں اپنے درمیان اور آس پڑوس کا جائزہ لیں کہ کہیں اسلام اور مسلمانوں کے واحد دشمن شیطان مردود نے "سوشل میڈیا اسلام” کے ذریعے سے ہمارے معاملات کو مندرجہ بالا عابد و زاہد کی طرح تو نہیں بنا دیا ھے. کہ ایک طرف تو ہم اس زندگی میں غیروں کا کیا ذکر اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے حلقہ احباب کے افراد کے معاملات سے کم و بیش بے تعلق اور اپنی ذمہ داریوں سے بیگانہ ہیں اور اگر ہم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے بھی ہیں تو اس کا مقصد کہیں نہ کہیں اپنے دنیاوی مفادات کے حصول کی خواہش ھے کہ ہم نے اپنی کوششوں سے جو مال و دولت اکٹھا کی ھے، کاروبار اور ادارے قائم کئے ہیں وہ سب ہمارے بعد ہماری اولاد اور خاندان سے ہی وابستہ رہیں، اور بس سال میں ایک بار ڈھائی فیصد ادا کر کے اپنی تمام معاشرتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں. شاید آخرت کی کامیابی کا بھی یہی تصور سمجھ لیا گیا ھے*
*جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ کے درمیان نفسانفسی کی کیفیت بنی ہوئی ھے اور روز بروز اس میں اضافہ ہی ہو رھا ھے*
*مسلمان کے لئے تو یہ زندگی ایک قید خانہ ھے جہاں پر اسے اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مبنی قوانین کے مطابق عمل پیرا ہونے کی فکر لاحق رہنا چاہیے ورنہ اس کیفیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کیا معاملہ پیش آئے گا، اس کا تو تصور بھی ممکن نہیں ھے.*
*کہیں ایسا تو نہیں کہ دونوں جہاں کا ہمارا تنہا دشمن شیطان مردود نے ہمیں یہ احساس کرا رکھا ھے کہ تمہارے دینی اجتماعات، قرآن کی کلاسز اور جب تک نیند کی شدت سے آنکھ بند نہ ہو جائے تب تک اپنے آپ کو موبائل فون سے وابستہ رکھنے سے ہی مغفرت ہو جائے گی.*
*اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت کے مطابق نماز فحاشی اور برائی سے روکتی ھے.*
*ایک طرف یہ ہدایت ھے کہ جس میں ذرہ برابر بھی شک کرنا خود کو دین سے خارج کرنا ھے اور اس کے ساتھ ہی ایک انتہائی تلخ حقیقت یہ ھے کہ ہماری نماز ہمیں برائی سے نہیں روک رہی ھے جس کو سمجھنے کا بہت آسان طریقہ ھے کہ دنیا کی کسی بھی مسجد کے باہر کھڑے ہوکر دیکھا جائے کہ مسجد سے نماز ادا کر کے نکلنے والوں میں کتنے لوگ ہیں جن پر اعتماد اور یقین کیا جا سکتا ھے*؟
*ہمیں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کس حد تک اس کیفیت میں مبتلا ہیں اور پھر رحمان و رحیم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرنے اور بقیہ زندگی میں شیطان کی تمام سازشوں سے محفوظ رکھنے کی دعا کرنا چاہیے.*
*اس تحریر میں پیش کیا گیا عابد و زاہد شخص کا واقعہ اس بات پر دلیل ھے کہ شیطان مردود ہمیشہ انسان کی پسند نہ پسند، مزاج اور معاملات زندگی کو بہت خوشنما اور عین دین کے مطابق زندگی گزارنے والا بندہ ہونے کا احساس کراتا ھے. جس کی وجہ سے ہمیں اپنی خطائیں، دینی تعلیمات سے انحراف کا احساس ہی نہیں ہوتا اور ہم خود کو ایک نہایت ہی دیندار انسان سمجھ رھے ہوتے ہیں آئیے ہم ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرنے والے اللہ رب العزت سے پناہ چاہیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں شامل کرنے کی شعوری دعا اور جدوجہد کریں.
*توجہ فرمائیں؛*یوں تو اللہ رب العزت نے قیامت تک کے لئے اپنے دین سے واقف اور وابستہ کرانے کے لئے رحمت العالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین، بے مثال اور حرفِ آخر اسوہ حسنہ کے طور پر عنایت فرمایا ھے مگر انسان کی فطری خواہشات مجبور کرتی ہیں کہ اس کے درمیان کوئی ایسی شخصیت موجود ہو جس کی رہنمائی میں اسلام کی تعلیمات کو سمجھا اور عمل پیرا ہوا جائے مگر افسوس افسوس لاکھوں مرتبہ افسوس کہ ہمارے درمیان اس وقت ایک بھی ایسی شخصیت موجود نہیں ھے جو کہ معاملات زندگی میں مجموعی طور پر ہمارے لئے قابل اتباع ہو.*
*عصر حاضر میں اسلام کی کیفیت کو سمجھنے کے لئے کافی ھے کہ ہم خالقِ کائنات اللہ رب العزت کے حضور پیش ہونے اور رحمت العالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے مظاہرے کا عمل "نماز” پر غور کریں کہ کیا ہماری نماز ادا کرنے کا طریقہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مطابقت رکھتا ھے.*
*حیرت اور افسوس کی بات یہ ھے کہ بمشکل دس فیصد مسلمان نماز ادا کرنے والے ہیں اور ان کی نمازیں بھی ایسی ہیں کہ جیسے اپنی مرضی سے مسجد نہیں آئے ہیں بلکہ کوئی مجبوری ان کو مسجد لے آئی ھے اور جلد از جلد اس مجبوری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں.*
*جب ہماری نماز ہی اصل طریقے پر نہیں ھے تو پھر کیسے ممکن ھے کہ معاشرے میں ہماری شناخت نماز ادا نہ کرنے والوں یا پھر غیر مسلموں سے کچھ مختلف محسوس کی جائے.*
*اللہ رب العزت کا دین طریقہ زندگی ھے اس کو طریقہ مذہب سے بچانے کے لئے عملی کوششوں کی شدید ضرورت ھے.*
*ایمان قبول کرنے یا پھر مسلم گھر میں پیدا ہونے کے بعد شعور آتے ہی سب سے پہلا اور زندگی کی آخری سانس یا ہوش و حواس رہنے تک کا عمل نماز ھے اور یہ نماز ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے تمام انسانوں سے ممتاز بناتی ھے.*
*نماز کی ادائیگی کی اولین شرط اس کا وقت پر ادا کرنا ھے اور پھر لازم ھے کہ ہم جاننے کی کوشش کریں کہ حادی برحق رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے ادا ہوتی تھی تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرنے والے بن سکیں.*
صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ھے کہ؛
*نماز میں اس طرح حاضر ہو کہ جیسے تم اللہ ذوالجلال والاکرام کو اپنے سامنے دیکھ رھے ہو اور اگر یہ کیفیت نہ بن سکے تو یہ احساس رھے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رھے ہیں.* *اللہ رب العزت ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا نصیب فرمائے اور معاملات زندگی میں اپنے دین پر عمل کرنے والا اور ثابت قدم بنائے.*
القرآن؛
*اور جو لوگ برے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اِس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا ھے* ۞الاعراف 153