غزہ کی پٹی میں سیکڑوں فلسطینی خاندان پیر کے روز اپنے قیدی بیٹوں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے منتظر ہیں، یہ رہائی غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت طے پائی ہے۔ تاہم دوسری جانب اسرائیلی حکومت کے اندر اس معاملے پر اختلاف پیدا ہو گیا ہے کیونکہ اس نے اب تک اُن فلسطینی قیدیوں کے نام ظاہر نہیں کیے جنہیں رہا کیا جانا ہے۔فلسطینی قیدیوں کی فہرست پر اختلافات کے باعث آخری لمحے میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ان تبدیلیوں میں آج جمعے کو فتح اور حماس دونوں تنظیموں کے ایسے قیدی شامل تھے جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق، حکومتی وزرا نے آج فون کے ذریعے تبدیل شدہ فہرست پر دوبارہ رائے شماری کی۔بعد ازاں اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ غزہ معاہدے کے تحت حماس کے 11 اور فتح کے 11 قیدی رہا کیے جائیں گے۔ فوجی ریڈیو نے بتایا کہ رہائی پانے والے قیدیوں کے ناموں میں "آخری لمحے پر تبدیلی” کی گئی ہے۔
10 نام بدل دیے گئے:اسرائیلی ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے تقریباً 10 نمایاں قیدیوں کے نام فہرست سے نکالنے کی درخواست کی تھی، تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
دوسری جانب اسرائیلی داخلی سلامتی کے ادارے شاباک کے ایک افسر نے بتایا کہ "ہم نے ہر فلسطینی قیدی کے نام پر الگ سے غور کیا ہے۔ ہمیں اپنے یرغمالیوں کی رہائی کی قیمت کا مکمل اندازہ ہے”۔ یہ بات اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتائی۔
شرم الشیخ کا معاہدہ:یہ رہائیاں اُس مفاہمتی دستاویز کا حصہ ہیں جو مصر کے شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے بعد دستخط کی گئی۔ اس کی نگرانی مصر، قطر اور امریکہ نے کی۔
اس معاہدے کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے 72 گھنٹوں کے اندر غزہ میں قید تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، بدلے میں مخصوص فلسطینی قیدی، جن کے نام پہلے سے طے ہیں، اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوں گے۔
یہ عمل کسی بھی براہِ راست میڈیا کوریج کے بغیر مکمل کیا جائے گا اور ریڈ کراس ہی واحد ادارہ ہوگا جو میدان میں اس عمل کی نگرانی کرے گا۔اسی دوران اسرائیل ایسے قیدیوں کی رہائی بھی شروع کرے گا جن کے خلاف سنگین مقدمات ہیں۔ذرائع کے مطابق اسرائیل نے اب تک غزہ میں موجود زندہ یرغمالیوں کی فہرست حاصل کر لی ہے، مگر وہ فلسطینی قیدیوں کی حتمی فہرست ابھی تک جمع نہیں کرا سکا۔
اہم شخصیات خارج:اسرائیلی حکومت کی ترجمان شوش بدرسیان نے کل تصدیق کی تھی کہ فتح کے معروف رہنما مروان برغوثی ان قیدیوں میں شامل نہیں ہوں گے جنہیں رہا کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق حماس کے سابق سربراہ یحییٰ السنوار اور اُن کے بھائی محمد السنوار، جو رواں سال مئی میں ہلاک کر دیے گئے تھے، ان کی لاشیں بھی قیدیوں کے اس تبادلے میں شامل نہیں ہیں
دریں اثنا حماس کو ابھی تک وہ فہرست موصول نہیں ہوئی ہے جنھیں اسرائیل یرغمالی اسرائیلی شہریوں کے بدلے رہا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عمل میں التوا کا تعلق ’اسرائیل کے اندر موجود اُس دباؤ‘ سے بھی ہے جس کے تحت حماس کے چند رہنماؤں کی رہائی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے کو ’گھنٹوں میں حل کرنے کی‘ کوششیں جاری ہیں۔حماس جن افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے اُن میں فلسطینی جماعت ’فتح‘ کے رہنما مروان برغوثی، حماس کے رہنما عبداللہ برغوثی، ابراہیم حمید، حسن سلامہ، عباس السید اور پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے سیکریٹری جنرل احمد سعادت شامل ہیں۔








