احمد عبید اللہ یاسر قاسمی
کارساز قدرت نے اس بے کس و لاچار انسان کے لیے جو آرزوؤں کا بندہ اور حسرتوں کے خمیر کا پتلا ہے اس کارگاہِ عالم میں اس کی فیروز مندی و کامرانی کے لیے مختلف انعامات و اکرامات نوازشات و عطایات کی بارش برساتا رہتا ہے، یہ وہ صنعت گاہ عالم جہاں نیکی و بدی بہار و خزاں، امید و یاس، شادی و غم، نغمہ و نوحہ،خندہ و گریہ،فنا و بقا، صحت و بیماری زمین پر بسنے والوں کے ساتھ منسلک رہتی ہے جس کے تحت ابن آدم کبھی خدا کا فرمانبردار اور شکر گذار بن جاتا ہے تو کبھی خطا کار اور قصور وار،ماہ شعبان کی پندرہویں رات جسے شب برات کہا جاتا ہے اپنے جلو میں خلاق عالم کی جانب سے ایسے ہی نافرمانوں اور ناشکروں کے لیے رحمت اور مغفرت کی رات اور خیر کثیر سے مرکب سوغات ہے یہ طلسم زار ہست و نیست ماتم کدئہ یاس بنی ہوئی ہے، وبائی امراض کے چلتے باضمیر افراد میں احساس ندامت کا چراغ روشن ہورہا ہے، مساجد سے دور گھروں میں محصور ہوکر خدائی عذاب کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہوا ہے تو توبہ و استغفار انابت اور رجوع کرنے والوں کے لیے یہ رات نہ صرف رحمت خداوندی بلکہ عطیہ الہی ہے
شب برأت کی فضیلت:احادیث نبوی کی روشنی میں
قلم کی یہ جنبش اور مضمون کا تسلسل کوئی خیالی اور فرضی نہیں بلکہ زمانہء نبوت، دورِصحابہ تابعین اور سلف میں اس عظیم الشان شب میں عبادتوں کا اہتمام ثابت ہے،خود خیر الخلائق صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد گرامی ہے
(ترمذی شریف ۱/۱۵۶، ابن ماجہ ،ص۹۹)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے نکلی، تو اچانک میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنۃ) البقیع میں موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ ناانصافی کرے گا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)
فاتح خیبر حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ترجمہ:جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہ شعبان) کا روزہ رکھا کرو،اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔(ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان ۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲)
یہی نہیں بلکہ امیر المومنین حضرت عمر کے فرزند ارجمند عبد اللہ رضی اللہ عنہما کا ارشاد گرامی ہے ان کا کہنا ہے: ترجمہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں کی جاتی ہےجمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔(شعیب الایمان ۳/۳۴۲، حدیث ۳۷۱۳)
اول الذکر حدیث نبوی میں کارساز قدرت کا آسمان دنیا پر جلوہ فگن ہونے اور بنو کلاب کے بکریوں کے بالوں سے زیادہ انسانوں کی مغفرت کی خبر دی جارہی ہے تو دوسری حدیث شریف میں اس نالائق انسان کو مالک کون و مکاں کی طرف سے ندا دی جارہی ہے جو تاج خلافت الہی سر پر اور خلعت کرامت (ولقد کرمنا بنی آدم) اپنے دوش ظلمت پر رکھتا ہے،
شب برأت میں منکرات
یہ دنیا کی حقیقت ہے کہ جہاں خیر ہوتا ہے وہیں شر کی آمیزش ہوجاتی ہے، جہاں اچھائی کی فضا قائم رہتی ہے وہیں برائی کی بدبو بھی معاشرہ کو مکدر کرتی ہے، ایک طرف خالق کائنات کی طرف سے انعامات و اکرامات کی انگنت نوازشیں ہیں تو وہیں بدعات و خرافات کے دلدل میں پھنس کر اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے دارین کا خسارہ مول لیتے ہیں، کیا کیا نہیں ہوتا؟ کون کونسی بدعات پر ہم نے اسلام کا لیبل لگا کر فروغ دے رکھا ہے مسلم معاشرہ میں اس عظیم البرکت شب میں آتش بازی کی جاتی ہے پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں،حلوہ پکا کر فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، قبرستان میں چراغاں کیا جاتا ہے، عورتیں قبرستان جاتی ہیں۔ یہ سب رسومات ہیں اور بالکل غلط خیالات ہیں قرآن وحدیث کے معارض ہیں بلکہ یہ وہ اعمال ہیں جن سے اس رات کی توہین ہے یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ اس رات جاگنا مقصود نہیں بلکہ عبادت مقصود ہے لہٰذا فضولیات اور لہو ولعب میں مشغول ہونے کے بجائے مزاج شریعت کا اعتدال مد نظر رکھتے ہوئے بکثرت عبادات کی انجام دہی ہمارے لیے دارین میں سعادت کا باعث ہوگی۔
سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم ان گناہوں میں ملوث رہ کر کیا خدا کے انعام سے محروم تو نہیں ہورہے ہیں؟ اگر ہم میں یہ برائیاں ہیں تو خدارا توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، ان گناہوں سے تائب ہوکر بارگاہ حق میں سجدہ ریز ہونے کی فکر کیجیے
خدا تعالیٰ ہمیں شریعت مطہرہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اس رات کی خیر و برکت سے ہماری اور تمام امت مسلمہ کی بخشش فرمائے اور ان نازک حالات میں وبائی امراض سے پوری ملت کی حفاظت فرمائے
آمین ثم آمین یا رب العالمین