بہار کا ہر لیڈر مسلمانوں کو اپنی پہلی ترجیح مانتا ہے۔ نتیش کمار، رام ولاس پاسوان اور لالو یادو کی سیاست کے مرکز میں مسلمان ہمیشہ رہے ہیں، لیکن اب ان کی دوسری نسل کے تیجسوی اور چراغ بھی مسلمانوں کو ساتھ لے کر اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ لیکن حیدرآباد کے اویسی اور پی کے اس مسلم سیاست میں قدم جمانے میں مصروف ہیں۔ اب ہر کوئی یہ سوچ رہا ہوگا کہ بہار کی سیاست میں مسلمانوں کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟
••بہار میں مسلمانوں کی آبادی 17.7 فیصد ہے۔
••بہار میں 87 اسمبلی سیٹیں ہیں جن کی آبادی 20 فیصد سے زیادہ ہے۔
•• وہیں 47 اسمبلی سیٹیں ہیں جن میں 15 سے 20 فیصد مسلم آبادی ہے۔
•• گزشتہ اسمبلی انتخابات میں گرینڈ الائنس کو 76 فیصد مسلم ووٹ ملے ۔
•• این ڈی اے کو 5 فیصد، ایل جے پی کو 2 فیصد و دیگر کو 17 فیصد ووٹ ملے۔ اگر ہم گزشتہ سال کے لوک سبھا انتخابات پر نظر ڈالیں تو مہاگٹھ بندھن کو تقریباً 87% مسلم ووٹ ملے تھے۔
این ڈی اے کو 12 فیصد اور دوسروں کو 1 فیصد ملے۔اعداد و شمار کو دیکھ کر آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے مسلمان کیوں اہم ہیں۔ آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ مسلمانوں نے حالیہ انتخابات میں تیجسوی اور کانگریس کے مہاگٹھ بندھن کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیجسوی یادو نے بہار انتخابات میں وقف قانون کو اہم مسئلہ بنادیا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ وقف کے نام پر مسلمانوں کا سب سے بڑا مسیحا بن جائے گا۔ لیکن صرف وقف ہی کیوں؟
**بہار میں بھی وقف بورڈ کے پاس 3 ہزار سے زیادہ جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں۔ان میں شیعہ اور سنی دونوں وقف بورڈ شامل ہیں۔
**صرف پٹنہ میں وقف بورڈ کی 300 سے زیادہ جائیدادیں ہیں۔
**ریاست کی کل وقف جائیدادوں میں سے 250 سے 300 جائیدادوں پر عدالت میں کیس چل رہے ہیں۔
**شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین افضل عباس کے مطابق، شیعہ وقف بورڈ کی ریاست میں 327 جائیدادیں ہیں، جن میں سے 117 صرف پٹنہ میں ہیں۔
ان میں سے 137 جائیدادوں سے متعلق کیس وقف ٹریبونل کے پاس ہیں اور 37 کیس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
•••تیجسوی کو سب سے بڑا خطرہ؟
تیجسوی کو سب سے بڑا خوف اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی سے ہے۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں اویسی نے سیمانچل میں مسلم اکثریتی سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔ اب ایک بار پھر اویسی نے بہار میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے۔ اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو کسی بھی قیمت پر اقتدار میں واپس آنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ اویسی کا یہ بیان بہار کے سیاسی گلیاروں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ واضح ہے کہ اویسی ایک بار پھر اسی طرح کا اتحاد بنانا چاہتے ہیں جیسا کہ پچھلی بار بنایا گیا تھا، جس میں بی ایس پی اور اپیندر کشواہا کی پارٹی شامل تھی، لیکن اس بار کشواہا این ڈی اے میں ہیں۔ دراصل، اویسی کی کوشش بہار میں مہاگٹھ بندھن کے ساتھ مل کر لڑنے کی تھی، لیکن جب انہیں وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا تو انہوں نے اپنا مورچہ بنانے کا اعلان کیا، لیکن نہ تو این ڈی اے کا پہلا محاذ اور نہ ہی مہاگٹھ بندھن کا دوسرا محاذ اویسی کے تیسرے محاذ یا پی کے کے چوتھے محاذ کے وجود کو قبول کر رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ تاہم اویسی کی طرح پی کے بھی مسلم ووٹوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ پی کے مسلسل مسلم لیڈروں کو اپنے ساتھ لے رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ مسلم ووٹروں پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
•••بی جے پی کا P•m game کیا ہے؟ نتیش کمار اور چراغ پاسوان کی وجہ سے این ڈی اے کو مسلم ووٹ مل رہے ہیں۔ تاہم حالیہ انتخابات میں مسلمانوں نے یک طرفہ طور پر عظیم اتحاد کو ووٹ دینا شروع کر دیا ہے۔ اس کے لیے بی جے پی نے ‘پی ایم گیم’ بنایا ہے۔ پی ایم کا مطلب پسماندہ مسلمان ہے۔ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو اپنی حمایت میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی نے جون کے مہینے میں پٹنہ میں پسماندہ مہا سمیلن کا بھی اہتمام کیا تاکہ پسماندہ مسلمانوں کو راغب کیا جاسکے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ وقف بل ہو یا تین طلاق کا معاملہ، مسلمانوں میں پسماندہ طبقہ اس سب سے اچھوتا رہا ہے اور اسے اس سے کبھی کوئی فائدہ نہیں ملا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو مسلسل بہلا رہی ہے۔ بی جے پی کے ایک طبقے کا ماننا ہے کہ چاہے مسلمان کسی بھی صورت میں بی جے پی کی حمایت نہ کریں لیکن ایک بڑی تعداد میں مسلم خواتین تین طلاق کے نام پر بی جے پی کی حمایت میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو وقف بورڈ کے نئے بل پر بھی راضی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔دیکھنا ہے کہ وہ اپنے پلان میںجتنی کامیاب ہوتی ہے اور آخر میں مسلمانوں کا رجحان کیا رہتا ہے ـ