اتر پردیش کی حکومت سنبھل میں 1978 کے فسادات کی فائلوں کو تلاش کر رہی ہے جس کے بعد 47 سال پہلے ہوئے فسادات کی دوبارہ جانچ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ سنبھل فسادات کے وقت یہ مرادآباد ضلع کا ایک حصہ تھا۔ این ڈی ٹی وی کے پاس فسادات سے متعلق ایک فائل ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 1993 میں ملائم سنگھ یادو کی حکومت نے آٹھ مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ اعظم خان اور شفیق الرحمان برق کے دباؤ میں لیا گیا تھا۔ اعظم خاں اس وقت جیل میں ہیں اور شفیق الرحمان برق مرحوم کے پوتے ضیاء الرحمان برق اب سنبھل کے ایم پی ہیں۔ یوپی حکومت سنبھل کیس کو اسمبلی انتخابات 2027 تک زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ گزشتہ سال 24 نومبر کو جامع مسجد کے سروے کے بعد یہاں پر تشدد ہوا تھا جس میں کئی لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔
مطلب یہ ہوا کہ سنبھل کا تنازعہ ابھی تھمنے کا نام نہیں لے گا، یوگی حکومت کے قدم بھی یہی اشارہ دے رہے ہیں- یوگی حکومت کے حکم پر سنبھل فسادات کی فائلوں کی جانچ کی جارہی ہے۔ ۔ یوگی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فسادات میں ہندو مارے گئے۔ لیکن ان مقدمات میں ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی… سب کو چھوڑ دیا گیا۔ محکمہ داخلہ کے حکم پر 47 سال قبل ہونے والے فسادات سے متعلق فائلوں کی تلاش کی جارہی ہے۔ اس دوران کئی اہم کاغذات ملے۔ جن سے انکشاف ہوا ہے کہ ملائم سنگھ یادو حکومت کے دوران کئی مقدمات واپس لینے کے فیصلے کیے گئے۔ اس میں قتل جیسے مقدمات بھی شامل ہیں۔ اب ان کیسز کی دوبارہ تحقیقات کی تیاریاں جاری ہیں۔
خبر کے مطابق اب تک 1978 کے فسادات سے متعلق کئی فائلیں موصول ہو چکی ہیں۔ ریفنڈ کیس کی فائل ہے۔ ملائم سنگھ یادو اس وقت یوپی کے وزیر اعلیٰ تھے۔ معاملہ 23 دسمبر 1993 کا ہے۔ این ڈی ٹی وی انڈیا کو حکومت کی طرف سے اس وقت لکھا گیا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں مقدمہ واپس لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ کے اسپیشل سکریٹری نے مرادآباد کے اس وقت کے ڈی ایم کو خط لکھا تھا جس میں آٹھ مقدمات واپس لینے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ ۔
یوپی کی یوگی حکومت یہ بتانا چاہتی ہے کہ 1978 کے فسادات میں ہندوؤں کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔ پہلے انہیں مارا گیا… پھر ان کی جائیداد چھین لی گئی۔ مقدمات درج ہونے کے باوجود تمام ملزمان کو چھوڑ دیا گیا۔ مقدمات کی سماعت کے دوران نہ تو صحیح طریقے سے گواہی دی گئی اور نہ ہی کیس کا دفاع کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ سماج وادی پارٹی کی حکومت نے خاص مذہب کو مدنظر رکھ کر کام کیا۔ اب ان فائلوں کو حاصل کرنے اور ان کی جانچ کے بعد بی جے پی کو انتخابی مسئلہ مل سکتا ہے۔ یوپی میں دو سال بعد 2027 میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ مظفر نگر فسادات کے بعد مغربی یوپی کی سیاسی تصویر بدل گئی ہے۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہونے سے بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مغربی یوپی کے کئی اضلاع میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ لیکن رام پور اور کندرکی جیسی اسمبلی سیٹیں بھی اب بی جے پی کے قبضے میں ہیں۔
**دو گواہ ابھی زندہ ہیں
ذرائع کے مطابق 1978 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دو گواہ اور چار ملزم ابھی زندہ ہیں۔ سنبھل فسادات کی دس فائلیں ملی ہیں۔ بہت سے کیسز میں ملزمان کو 2010 میں عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا تھا۔ فائلیں تو مل گئی ہیں لیکن ان سے متعلق کئی ریکارڈ ابھی تک نہیں ملے۔ ان فائلوں میں ریاست بنام رضوان، ریاست بنام منظر اور ریاست بنام واجد جیسے مقدمات کی فائلیں شامل ہیں۔ ان میں آئی پی سی کی دفعہ 147، 148، 149، 395، 397، 436 اور 307 کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے(۔این ڈی ٹی وی کے ان ہٹ کے ساتھ)