تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
بھارت میں زیادہ تر فرقہ وارانہ تنازعات برٹش دور میں پیدا ہوئے بلکہ سامراجی مقاصد کے تحت پیدا کیے گئے ، اکثریتی سماج میں تاریخی حقائق و واقعات کو تنقیح و تحقیق کے ساتھ سامنے لانے کا رجحان قدیم ماضی سے ہی بہت کم پایا جاتا ہے مسلمانوں کی آمد کے ساتھ اور بعد میں بھی تاریخ نویسی کی طرف قدرے رجحان پیدا ہونا شروع ہوا، اکثریتی سماج میں کہانیوں اور افسانوں کو خاص طرح کی عقیدت و رومانیت کا تڑکا لگا کر سامنے لانے اور پھیلانے کا زبردست چلن ماضی سے حال تک کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، اگر یہ رجحان اپنے دائرے میں ہو تو زیادہ قابل اعتراض نہیں ہے ، اسے اپنی اپنی پسند اور اپنی اپنی نظر کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے ۔
ایک آزاد مہذب سماج ،کسی بھی چیز کو ماننے اور اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے اور ترک کرنے کے لیے آزاد ہے ، خصوصاً بھارت کے مخصوص ماحول میں اختیار و ترک کی بڑی آزادی نظر آتی ہے ، بہت سے ہندو دانشور ، مصنفین اور رہ نما اس آزادی کو خوبی کے طور پر پیش کر تے ہیں ، ایسی حالت میں کسی بھی تصور و نظریہ اور آستھا کا دیگر کو زبردستی پابند بنانے کے رجحان و عمل کا کوئی جواز نہیں ہے ، لیکن مخصوص طرح کے تصورات و رجحانات کے تحت بھارت میں ہندو سنسکرتی ، بھارتیہ تہذیب و تاریخ کے تحفظ و تبلیغ اور احیاءکے نام پر پورے ملک کے باشندوں کو ہندو تو کے رنگ میں رنگنے اور اس کے دائرے میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ایک الگ طرز و طریقے کی تاریخ لکھنے اور بنانے کی مہم زوروں پر ہے ، یہ تاریخ نگاری نہیں بلکہ تاریخ گھڑنے اور تاریخ سازی کا غلط رجحانات پر مبنی جارحانہ مکروہ عمل ہے ، اس میں تنگ نظری ، جذبہ حسد اور مذموم فرقہ وارانہ ذہنیت کا بڑا عمل دخل ہے ۔
یہ اصلا ً تاریخ اور تہذیب کے احیاءو واپسی کے نام پر تو ہم اور تاریکی پھیلا کر اپنے سماج میں بڑی جگہ بناتے ہوئے ملک کے خوبصورت تنوعات اور رنگا رنگی ختم کرنے کا کھیل ہے ، اگر اسے سنجیدگی سے ختم کرنے کی موثر کوشش نہیں کی گئی تو بھارت میں اکثریت پرستی پرمبنی تفوق و بالاتری کا تباہ کن ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو جمہوری اور مہذب آزاد و معاشرے کی تشکیل کے بجائے ، تخریب و انہدام کا عمل ملک کی سیاسی و سماجی تہذیب کی شناخت بن جائے گا ، بلڈوزر تہذیب ،انصاف کی علامت بن جانا، کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ایک شرمناک بات ہے ، یہ تشویش کی بات ہے کہ تخریب و انہدام کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پارہا ہے ، اور یہ مذموم و مکروہ رجحان ، تہذیب و تاریخ کے انہدام اور معاشرے کی بربادی اور تمدنی وتہذیبی ورثے کو تباہ کر کے فرقہ وارانہ ذوق کی تسکین تک پہنچ گیا ہے ، پرانے معابدوماثر (عبادت گاہ ویادگار) کی کھدائی کے مطالبات یقینی طو رپر تخریبی ذہنیت کی پیداوار ہیں ، تاریخی بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس کی جگہ اکثریت کے فرقہ وارانہ رجحان کے مطابق مندر کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کرنا، دو ررس انجام کا تباہ کن آغاز ہے ، اس نے فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی اور فرقہ وارانہ بھوک کو بڑھانے کا کام کیا ہے ۔
فرقہ پرست سامراج وادی مورخین و مصنفین نے بھی فرقہ وارانہ رجحانات کو تقویت دینے کے ساتھ سماج کی مذموم تقسیم کی راہ ہموا ر کرنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑ ی ہے ، جس طور سے تاریخ کو اصل واقعات کے منظر ، پس منظر اور اسباب و علل کو نظر انداز کر کے ماضی میں پیش کیا گیا اور آج بھی پیش کیا جا رہا ہے ، اس نے مذہبی فرقہ وارانہ نفرت و عداوت کو بڑھانے کا کام کیا ہے ۔ سامراج وادی مورخین کے سامراجی مقاصد و اغراض کے مد نظر گمراہ کن تاریخ نویسی کی کو رانہ تقلید اور غلامانہ رجحانات نے مختلف فرقوں میں قربت و یکجہتی کے جذبے کو ختم کر کے باہمی منافرت کی آب یاری کی ہے ، جدو ناتھ سرکار ،ایشوری پرساد ،آرایس مجمدارجیسے مصنّفین نے مسلم حکمرانوں ، خصوصاً محمد بن قاسم، اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان وغیرہم کی زندگی ، حکومت اور طرز حکومت پر بحث کرتے ہوئے جس طرح کے تبصرے و تجزیے کیے ہیں ، ان سے بسا اوقات تاریخ کی روشنی ملنے کے بجائے قارئین کو تاریکی سے واسطہ پڑتا ہے ، انھوں نے تاریخی حقائق پیش کرنے کے نام پر متعلقہ تاریخی شخصیات کے مذہب جسے دیگر کی بڑی تعداد بھی مانتی ہے کو نشانہ بنایا ہے ، مثلاً سرجدو ناتھ سرکار جنھوں نے اورنگ زیب پر سب سے زیادہ کام کیا ہے ، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
”ایک مذہب جو اپنے پیروؤں کو ڈاکہ زنی اور قتل کو مذہبی فریضہ سمجھنے کی تلقین کرتا ہو وہ انسانیت کی ترقی اور دنیا کے امن کا ساتھ نہیں دے سکتا ہے ۔‘‘ (اورنگ زیب جلد 3 صفحہ 264 سے 268)
ظاہر ہے کہ یہ وصل کے بجائے فصل کی کوشش اور اورنگ زیب کے بجائے اس کے مذہب پر کھلا حملہ ہے ، جدو ناتھ سرکار یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور درس و تدریس کا مشغلہ رکھتے تھے ، اس غلط رجحان کا اثر طلبہ ، نوجوان نسل اور اساتذہ پر لازماً پڑا ہوگا اور بلکہ پڑا ہے ، ملک کی کئی یونی ورسٹیوں کے بہت سے اساتذہ کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر فرقہ وارانہ نفرت کا اظہار کرتے ہیں حتی کہ دہلی یونی ورسٹی کے کئی پروفیسر کھلے عام آر، ایس ایس وچارک و حامی کہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی آئے دن کرتے رہتے ہیں ،وہ اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے مسلمانوں کو ادھرمی اور ملیچھ آج بھی کہتے ہیں ۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر سنگیت راگی وغیرہ کے ٹی وی چینلز کے آئے دن کے جارحانہ تبصرے کو دیکھا سنا جا سکتا ہے ، ایسے لوگوں کی اپنی کوئی غیر جانب دارانہ منصفانہ تحقیق نہیں ہے ، بلکہ پہلوں کے جھوٹے لقمے کی جگالی بھر کرتے ہیں ، حال کے ایک ٹی وی مباحثے میں پروفیسر راگی نے مسلم حکمرانوں کو ملیچھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ان معابد و ماثر کو واپس لیا جائے گا، جو مبینہ طور پر ہندو معابد و ماثر پر بنے ہیں ، یہ تاریخ کے نام پر تاریکی پھیلانے کی مہم ہے ، جدو ناتھ سرکار کی زیادہ تر تحریریں برٹش سامراج کے دور ، آزادی سے پہلے کی ہیں ،لیکن آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کو ملک کا داخلی خطرہ اور ملیچھ اور بھارت کے لیے مسئلہ و المیہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
اس کے لیے گرو گولولکر کی ”بنچ آف ٹھاٹس“، رام دھاری سنگھ دنکر کی ”بھارتیہ ایکتا، راشٹریہ ایکتا“اور آر ، ایس مجمدار کی” ہسٹری اینڈ کلچر آف انڈین پیپل“کو دیکھا جا سکتا ہے، ںمجمدار نے کھلے طور سے مسلمانوں کو ملیچھ قرار دے کر ان کی ہندستان میں آمد کو المیہ لکھا ہے ، اس کے پیش نظر شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ تاریخ کے نام پر تاریک رجحانات کا تاریخی و علمی تجزیہ کر کے اسے سامنے لایا جائے ،اس پر معروف مسلم تنظیموں اور اداروں کو سنجیدہ توجہ دے کر کام کو آگے بڑھانا چاہیے ،اس کے بغیر تاریخ کے نام پر تاریکی پھیلانے کی مہم پر قدغن نہیں لگ سکتا ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)